شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات!

0
114
کامل احمر

قرة العین حیدر20ویںصدی کی سب سے بڑی شخصیت ہیں۔ ناول افسانہ اور صحافت کے میدان میں دنیا بھر میں ان کی شناخت ہے۔1959ء میں ان کا شہرہ آفاق ناول ”آگ کا دریا” پاکستان میں شائع ہوا تھا جب ہمیں شعور نہ تھا کہ یہ ناول کیا ہے۔ بس اس ناول کے کردار گوتم نیلامبر سے واقفیت تھی یہ ناول ہندوستان کی صدیوں کی کہانی ہے۔
تیسری عیسوی سے 19ویں عیسوی تک کی اس کایہ کردار ہر دور میں جنم لیتا ہے یہ ناول دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ اس کے بارے میں ہم کتاب لکھ سکتے ہیں لیکن یہاں جو ان کی زبان سے نکلے الفاظ ہیں ایک لکھاری کی حیثیت سے ‘کہ وہ کیوں لکھاری بنیں ناول لکھنے سے ان کو اتنی رقم نہیں ملی جتنا کہ صحافت کے پیسے سے” انہوں نے کہا تھا کہ وہ بے حد حساس ہیں دنیا میں ان کے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس پر دھیان دے کر جذباتی ہو جاتی ہیں اور پھر اپنے ان جذبات کو کاغذ پر بکھیر دیتی ہیں، دل کرتا ہے دنیا بھر کے لوگوں کی تکالیف کو سمیٹ لوں، اس چڑیا کی طرح جو اپنے پنکھ اڑتے وقت پھیلا کر سمجھتی ہے کہ اس نے آسمان کو گرنے سے بچا لیا ہے”۔
صاحبو !یہ ہی حالت ہماری ہے کہ لکھتے اس لیے ہیں کہ لوگوں کا ضمیر جاگے۔حکمرانوں تک ہماری بات پہنچے اور تو اور امریکہ کا صدر وہ چاہے ٹرمپ ہو یا بائیڈن تک ہماری بات پہنچے اس کیلئے سوشل میڈیا کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ اسرائیل کی جارحیت اور مودی کی کشمیریوں کے ساتھ ظلم کی تصویر دکھاتے ہوئے فیس بک ہمیں دوبار بین کر چکا ہے۔ ہمیں دو تین یا زیادہ سے زیادہ دس بارہ کمنٹ ملتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہماری سوچ میں جو ضمیر کے تحت ہے ہم اس ملک کے شہری ہیں جہاں کہنے کی آزادی ہے ۔ مغرب کے سارے ممالک ایک ہی اقدار کے پابند ہیں اور یہ جمہوریت ہے۔ یہاں آکر بھی اگر ہم بزدلانہ رویہ چاپلوسی کے انداز میں رکھیں تو خود پر لعنت بھیجنے کو دل چاہتا ہے۔ قرة العین حیدر ہوں یا ہم بس ایک ہی جستجو ہے کہ شاید آسمان کو گرنے سے بچا سکیں یا پھر چونچ میں پانی بھر کر نیچے جلتی آگ پر پھینک کر آگ بجھا سکیں۔ لیکن ہر دور میں ایسے لوگ دکھی رہے ہیں۔ سقراط کا دور بھی ایسا تھا اس نے زہر کا پیالہ پی کر اپنی ثابت قدمی اور ضمیر کی پابندی کی۔ یہ باتیں شاید وہ لوگ نہ سمجھ پائیں جو پچھلے ہفتے مختلف جماعتوں (نیویارک) کی تنظیموں نے APAG کے تحت ایرک آدم جو نیویارک سٹی کے میئر کے عہدے کا انتخاب لڑ رہا ہے۔ فنڈ ریزنگ ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ ایرک آدم جو کچھ پاکستانیوں کی کسی بات سے چڑا ہوا تھا نے آتے ہی دھواں دار جذباتی انداز میں پاکستانیوں کا نام لے کر کھری کھری سنا دیں۔ اس بے وقوف کو سیاست بھی نہیں آتی کہ ہر چند وہاں وہ پاکستانی بھی تھے جو اس کے مخالف کو سپورٹ کرچکے تھے لیکن اس بات کا پتہ اسے کیسے چلا۔ ظاہر ہے اس نے تعصبانہ تقریر سے سب کو دکھی تو کیا ہو گا۔ بقول اس کے اس نے 35سال سے پاکستانیوں کا ساتھ دیا ہے اور انہوں نے میرے مخالف کا ساتھ دے کر مجھے دکھی کیا ہے۔ لیکن میں معاف کرتا ہوں انہیں۔ ہمیں نہیں معلوم ایرک آدم نے پاکستانیوں کو کیا فیور دیا تھا جس کے عوض وہ ان سب سے ووٹ مانگ رہا تھا اور یہ سب بکواس وہاں بیٹھے بالخصوص پی ٹی آئی کے لوگوں نے بھی سنی، سب کے سب تالیاں بجاتے رہے۔ سب کے ضمیر سوتے رہے یا ان میں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں تھی یا ان کی پرورش ایک غلامانہ ماحول میں ہوئی تھی کہ ایک فرد بھی احتجاجاً اپنی کرسی سے نہ ہلا سب کے سب مٹی کے مادھو بنے بیٹھے رہے۔
امریکہ میں 50سالوں میں ہم نے کسی امریکن کا رویہ ایسا نہیں دیکھا جو انتخاب لڑنے جا رہا ہوں اور ووٹرز کو ذلیل کررہا ہو۔ حتی کہ نوازشریف اور زرداری کا بھی نہیں۔ اب یہ پاکستان تنظیموں پر منحصر ہے کہ وہ ایرک آدم کے خلاف محاذ بناتی ہیں یا چاپلوسی کے ساتھ اس کا ساتھ دیتی ہیں نہ ہی ہم ایرک آدم سے معافی منگوانے کے حق میں ہیں کہ اس نے خود کو ننگا کیا ہے۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ وہ بھول جائیں کہ صرف پاکستانیوں کیلئے بلکہ پورے نیویارک کیلئے کیا کرے گا۔ شاباشی ہے ان پاکستانیوں کیلئے جو ایرک آدم کی بکواس سن کر خاموش ہو جائیں کیا وہ اس چڑیا سے بھی گئے گزرے ہیں۔ یہ شعور کی بات ہے ۔ ضمیر کا امتحان ہے پھر وہ کس منہ سے ”کشمیر بنے گا پاکستان” اور اسرائیلی جارحیت جو فلسطینیوں کے خلاف جاری ہے کا نعرہ اور جواب دینے کے قابل ہیں۔ ہم آج ایرک آدم سے زیادہ جو ہماری نظر میں CRY BABY ہے پاکستانیوں کے رویئے سے بیزار اور دکھی ہیں اور اسی احساس کے تلے ہمارا قلم لکھ رہا ہے کہ کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات اور وہ اٹھ کھڑے ہوں اور ایرک آدم کو جواب طلب کریں اور ایسا نہ کرنے پر اس کے چیک نہ کاٹیں۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ فنڈ ریزنگ کسی امیدوار کیلئے کیوں کی جاتی ہے جس کو یہاں کی یہودی لابی پوری سپورٹ دے رہی ہے اور فنڈریزنگ کرنیوالے کون لوگ ہیں اور ایرک آدم سے وہ اس کے عوض کیا لیں گے، کیا وہ بتانا پسند کریں گے؟ یہ بھی کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے اپنے فخر کو اس طرح مسخ کریں گے کہ ہمارا سر شرم سے جھکے۔ آخر ایرک آدم نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے یہ شہر صرف اس کا ہی نہیں جس سے وہ کئی گنا فائدہ اٹھا چکا ہے۔ ایک جذباتی انسان ہونے کے ناطے اس نے غلط بیانی بھی کی ہے کہ ٹرمپ نے مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگائی تھی۔ ایسا کچھ نہیں تھا ٹرمپ نے ہر اس پرپابندی لگائی تھی جو غیر قانونی طور پر اس ملک میں آتا ہے اور یہاں کے قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتا ۔ ”کالوں کی زندگی اہم ”کی آڑ میں دوسری اقلیتوں کو تعصب کا نشانہ بنانے کی کسی کو اجازت نہیں اور ایسا ہے تو ہم سب کو اختیار ہے کہ ایسے شخص کو بتا دیا جائے کہ وہ اس شہر کا میئر بننے کے قابل نہیں ۔ جہاں دنیا بھر کے ہر ملک اور ہر مذہب کے کالے اور گورے باشندے ۔مواقعوں کی سرزمین سے فائدہ اٹھانے کے حقدار ہیں صرف وہ ہی نہیں۔ اگر کسی کو ہماری یہ بات جذباتی لگے تو غور کریں ہم نے کون سی بات غلط لکھی ہے ایک لکھاری ہونے کے ناطے؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here