ہمارے بچپن میں ہمارے والد محترم جو قیام پاکستان سے پولیس میں تھے اور پاکستان آکر بھی محکمہ پولیس میں ہی خدمات انجام دیتے رہے ہم سات بھائیوں کو ایک کہاوت عموماً سناتے تھے، ایک شخص کے سات بیٹے تھے، ساتوں بھائیوں کی آپس میں بنتی نہ تھی اور بات بات پر لڑائی جھگڑا کرتے تھے۔ باپ اپنے بیٹوں کی حرکات و محاذ آرائی سے تنگ آچکا تھا۔ ایک روز باپ نے بیٹوں کو بلایا اور سات لکڑیوں کا گٹھڑا بنا کر ایک ایک بیٹے کو دے کر توڑنے کی ہدایت کی لیکن کوئی بھی اس گٹھڑے کو نہ توڑ سکا۔ باپ نے گٹھڑی کھول کر ایک ایک لکڑی ہر بیٹے کو دے کر توڑنے کا کہا تو ساتوں بیٹوں نے آسانی سے اپنی اپنی لکڑی توڑ دی۔ دانشمند باپ کا یہ اقدام اپنے بیٹوں کو اتحاد کی طاقت اور آپس کے جھگڑوں سے کمزوری اور ٹوٹ جانے کا احساس دلانا اور یکجہتی کا احساس دلانا تھا۔ ہمیں یہ حکایت پی ٹی آئی میں پیش آمدہ جھگڑوں، تقسیم اور انتشاری کیفیت کے تناظر میں شدت سے یاد آئی ہے۔ پی ٹی آئی اور عوام کے مقبول ترین قائد عمران خان کی اسیری و ریاستی ظلم کی موجودہ صورتحال میں اس طرح کی تقسیم کو کسی طرح بھی مناسب نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت کو دنیا بھر جانتی ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان ہے اور عمران ہی پی ٹی آئی کی مقبولیت و محبوبیت کی بنیاد ہے، ساری پاکستانی قوم (ملک و بیرون ملک) عمران کی قیادت پر مجتمع ہی نہیں کپتان کے سیاسی و ریاستی حکومتی مخالفین بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔ موجودہ مقتدر حکمرانوں اور کاسۂ لیسوں کے عمران سے خوفزدہ ہونے کے سبب اسیر رہنماء کی قید سے رہائی نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی میں گروہ بندی اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ آئے دن اختلاف ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بانی قائد سے وفاداری کے نام پر اپنی چوہدراہٹ کا ابلاغ ساری قوم کیلئے فکر و پریشانی کی بنیاد بنا ہوا ہے۔ اس سارے تماشے میں جہاں کپتان کی اپنی نامزد کردہ ٹیم شامل ہے بلکہ وہ مفاد پرست بھی شامل ہیں جو آزمائش کی گھڑی میں کپتان اور پارٹی چھوڑ گئے تھے لیکن اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ بچانے یا ریاستی سازشی حکمت عملی کے پیش نظر عمران خان سے اپنی وفاداری اور مخلصی کا اظہار کر رہے ہیںَ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عمران کے دوست نہیں بلکہ عمران دشمنی اور اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر پارٹی اور خان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں یا عمران کی مقبولیت اور عوام کی محبت کے فلسفے کو آڑ بنا کر اپنے سیاسی و مالی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیںَ اس کھیل میں سیاسی بہروپیئے ہی نہیں، سینکڑوں ہزاروں سوشل میڈیا اینکر، ٹک ٹاکر اور لاگرز بھی شامل ہیں جو خان کے نام پر کروڑوں بنا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تماشہ بازی عمران کی جدوجہد کو نقصان پہنچانے اور مخالف قوتوں کو فائدہ پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے جو حالات رونما ہوئے ہیں ان کے حوالے سے ہمیں مرزا غالب کا شعر یاد آرہا ہے، ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق” نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی”تھپڑ، گھونسہ، مارکٹائی، الزام تراشی، تنظیمی شورش اور منسوخی کا ہنگام موضوع بنے رہے، بانیٔ چیئرمین کا نام لے کر تضاداتی بیانات کی صورتحال ایک جانب مین اسٹریم میڈیا کے چسکے اور ریٹنگ کا ذریعہ بنی ہوئی تھی تو دوسری طرف سوشل میڈیا کے کپتان کے حوالے سے بے بنیاد خوش فہم دعوئوں کی وجہ سے کنفیوژن کا سبب بنی ہوئی تھی۔ ذرائع کے مطابق مقتدرین کے پٹھو اور پی ٹی آئی اور خان کا خود کو ہمدم و ہمدرد ظاہر کرنے والے فواد چوہدری کا اڈیالہ میں 9مئی کے کیس کی پیشی پر شعیب شاہین پر حملہ اور خود کی درگت کی داستان زبان زد عام ہے تو دوسری جانب شیر افضل مروت کے تنظیم سے نکالے جانے کا واقعہ جہاں پی ٹی آئی کی جدوجہد کے متاثر ہونے کے شبہات ظاہر ہو رہے ہیں، وہیں عمران خان پر ریاستی سختیوں اور بندشوں میں مزید شدت نظر آرہی ہے۔ عمران سے ملاقاتوں پر پابندی اور سماعتوں میں التواء تازہ ترین مثالیں ہیں۔مرزا غالب کے درج بالا سطور میں متذکرہ مصرع ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق کی طویل صورتحال نے ہر پاکستانی کو مایوسی اور غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے جو نہ وطن کیلئے بہتر ہے نہ ہی عوام کے حق میں ہے۔ حد یہ ہے کہ وطن عزیز کا ہر شعبہ انحطاط کا شکار ہے، عوام کسی خوش کن جذبے اور اُمید سے محروم اور لاتعلق نظر آتے ہیں۔ وقت اور وطن کی محبت کا تقاضہ ہے کہ وطن اور عوام کی بہتری و استقامت کیلئے وطن عزیز کے محافظ اور تمام ذمہ داران خصوصاً مقتدرہ کے سربراہ اپنے روئیے اور اقدامات پر نظر ثانی کریں کہ بغض عمرانیہ پر مشتمل ہائبرڈ نظام ملک و عوام کے حق میں نہیں مزید خرابی و عدم استحکام کا ہی سبب ہوگا۔
٭٭٭ا