فانی دنیا !!!

0
55
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج کا موضوع جس تاریخی حوالے کے ساتھ چنا ہے وہ آپ کو یاد دلائے گا اس دنیا کا نظام کیسا ہے لوگ یہاں آتے ہیں ایجادات آتی ہیں چلی جاتی ہیں سب ایک دن دفن ہوجاتے ہیں کسی کو یاد نہیں رہتا دو تین نسل بعد انسان کو شائد اسکی نسل بھی فاتحہ میں یاد نہ رکھے کسی سے آجکل دادا سے آگے پردادا کا نام پوچھیں تو اس زمانے کے بہت سے بچوں کو معلوم نہیں ہوگا ،ہمارے زمانے کے لوگ یاد رکھتے تھے ،اپنا شجرہ سنبھالتے تھے لیکن عالمی جنگوں اور دنیا کی کساد بازاری نے سارا نظام تتر بتر کردیا ،اب آتے ہیں اس کہانی کی طرف جو ریلوے کے بارے میں انٹرنیٹ پر موجود ہے پڑھئیے اور لطف اٹھائیں، وہ کپڑے کا کاروبار کرتا تھا۔ اس نے ٹل ریلوے اسٹیشن سے کولمبو سری لنکا کا ٹکٹ لیا اور صاف ستھرے چھوٹے سے اسٹیشن کے ایک بینچ پر دراز ہو گیا (یاد رہے کہ ٹل دور افتادہ ضلع ہنگو کا ایک قصبہ ہے۔یہ لنڈی کوتل کے ساتھ ٹھل کی بات ہے)خیر دوپہر ذرا ڈھلکی تو تنگ پٹڑی پر بھاپ اڑاتا ریلوے انجن ننھی منی بوگیاں لیئے آن لگا۔ وہ بھی چمڑے کا بھاری بھر کم تھیلا لیئے کھڑکی کے ساتھ نشست پر براجمان ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ریل کی گداز سیٹی بجی اور چھک چھک کی آواز کے ساتھ ریل چل پڑی۔سنگلاخ چٹانیں کی اوٹ سے کہیں ایک دم سے منظر بدلتا تو سرسبز وادیاں نظر آتیں۔ دو ایک سرنگیں چیرتی اور کئی ندیوں اور دریاں کو پھلانگتی ریل گاڑی چھک چھک اور کوک کی آواز کے ساتھ راستے سے مسافر اتارتی چڑھاتی بھاگتی رہی۔ یہاں تک کہ شام کے سائے گہرے ہونے لگے لیکن منظر ایسا تھا کہ وہ اس منظر کا حصہ بنے اس میں کھو سا گیا تھا۔ابھی مغرب کی اذان نہ ہوئی تھی کہ چھوٹی پٹری پر بھاگتی ریل کا آخری سٹیشن راولپنڈی آ گیا۔ اس نے بھی اپنا سامان سمیٹا اور لوہے کے ڈھانچے میں لکڑی سے بنی اپنی بوگی سے باہر آ گیا۔باہر آ کر اس نے نل سے منہ ہاتھ دھویا اور تھیلا کاندھے پر لٹکائے سٹیشن سے باہر نکل آیا۔ بھوک اپنے جوبن پر تھی سو سامنے فوجیوں کی بیرکوں کے کنارے کنٹنین سے کڑک چائے اور روٹی سالن کھا کر واپس سٹیشن آ رہا۔
پنڈی شہر اس کے سامنے آہنی جنگلے کے پیچھے تھا جسے وہ رات کے سائے گہرے ہونے سے کے باوجود سارا ایک ہی نگاہ میں دیکھ سکتا تھا۔ وہ کئی سالوں سے پنڈی کاروبار کر رہا تھا سو اس کو معلوم تھا کہ شہر کے وسط میں بہتی حسین لئی ندی کے کنارے بازار جب شام ڈھلے بند ہو جاتے ہیں تو بلند حویلیوں کی فصیل سے ندی کے پانی میں چاند کا عکس کتنا حسین لگتا ہے۔وہ ان سوچوں میں ہی گم تھا کہ اس کی مطلوبہ ٹرین شور مچاتی اسٹیشن پر آن کھڑی ہوئی۔ وہ بھاگ کر اس بڑی بوگیوں اور دیوہیکل انجن والی ریل گاڑی پر سوار ہو گیا۔اب اس کا سفر طویل تھا سو ایک نشست پر تھیلا سر کے نیچے دبائے کچھ ہی دیر بعد وہ سو گیا۔ ریل گاڑی شور مچاتی، بھاپ اڑاتی لاہور پہنچی۔انجن کا شور بند ہوا تو مسجدوں کے میناروں پر کھڑے موذن فجر کی اذانیں دے رہے تھے۔یہاں ریل کا انجن بدلا۔ مسافر بدلے لیکن وہ دبکا بیٹھا رہا۔ وہ پہاڑوں کا بیٹا اور سنگلاخ چٹانوں میں پلا تھا تو حیرت اور تجسس سے حد نگاہ تک پھیلے سبز فصلوں کے قالین کو دیکھنے لگا۔وہ سوتا جاگتا، اٹھتا بیٹھتا اور کبھی اسٹیشنوں پر اترتا امرتسر، انبالہ، سہارنپور اور بریلی سے ہوتا بنارس جا پہنچا۔یہ اس کا دوسرا سفر تھا۔ بنارس سے اسے ریل بدلنا تھی۔ اس کے پاس نقدی اور قیمتی سامان تھا اور رات سامنے۔ لیکن وہاں ایک بابو کو ٹرین ٹکٹ دکھا کر سرکاری آرام گاہ میں اسے بستر مل گیا جہاں حفاظت تو تھی لیکن انجانی جگہ اور رات کو اکا دکا مال گاڑیوں کی آمدورفت سے اس کی انکھ ضرور کھلی۔صبح جاگا تو نہا دھو کر وہ انتہائی تازہ دم تھا،پھر ریل آئی اور وہ بنگال کی جانب عازم سفر تھا۔ایک اور جنکشن سے ریل بدلنے کے بعد اس کا سفر سمندر کے ساتھ ساتھ تھا۔کبھی تو چند کلومیٹر دور اسے سمندر کی لہریں نظر بھی آ جاتیں تو تجسس کا عالم یہ ہوتا کہ وہ باقائدہ کھڑا ہو کر اس کو دیکھنے لگتایہاں تک کہ وہ سمندر کنارے آخری اسٹیشن نیگاپتم پہنچ گیا۔یہاں سے اسی ٹکٹ جو اس نے ٹھل ریلوے اسٹیشن سے خریدا تھا میں اسٹیمر میں سوار کرا دیا گیا۔ یہ سفر طویل اور ڈرائونا تھا لیکن بحرحال اس نے کولمبو کاروبار کرنے کا فیصلہ خود کیا تھا اور وہ اس ایڈوینچر کا مزا لے رہا تھا۔اسٹیمر پالائی جا لگا جہاں سے پھر وہی ریل، وہی ڈبے لیکن منظر یکسر مختلف۔ لنکا میں اسٹیشن بہت کم تھے اور جنگلوں کی بہتات۔ سات آٹھ گھنٹوں بعد وہ کولمبو پہنچ چکا تھا۔شاید سننے میں آپ کو یہ داستان ناممکن، عجیب اور مضحکہ خیز لگے لیکن آج دو ہزار پچیس کے پاکستان میں ناممکن لگنے والی یہ داستان خود میں نے عظیم منظر نگار اور ادیب اے حمید کے منہ سے سنی۔جو ان کے دوست داد بنگش کے انیس سو دس یعنی آج سے ایک سو پندرہ سال پرانے سفر کی داستان ہے، اس کا یہ کل سفر ساڑھے پانچ دن پر محیط تھا۔
اگرچہ طوالت کے خوف سے اس سفر کو ممکن حد تک اختصار سے سنایا لیکن ایک سوال بہرحآل موجود ہے کہ
“کیا ایک سو پندرہ سال قبل ہمارے ملک میں موجود ریلوے نظام کا مقابلہ ہم سو سال بعد بھی کر سکیں گے۔؟آج ٹل کا ریل راستہ بند ہو چکا۔
وہ دیومالائی ایک کمرے کا سٹیشن اب صرف پانی بھرنے کی ایک جگہ ہے۔
سب تاریخ میں بھی مرنے والے ہیں یہاں تک کہ کسی اور دنیا کی سواری لگنے والی نیرو گیج بوگیاں اور انجن بھی کباڑ خانوں اور ان کی لکڑی چولہوں میں جل چکی ہے۔
قارئین کرام دیکھا آپ نے قوی الحبثہ انجن ہوں یا ریل کی بوگیاں ان کے نیچے رکھی گئی لکڑی ہو یا پتھر سب کیسے ایسا ہوگیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں بس اس فانی دنیا کا اتنا سا قصہ ہے مالی مفاد دنیا داری سب یہاں رہ جانا ہے اگر باقی کچھ رہا تو آپکی نیکی ہے اور وہ نیک صدقہ جاریہ جو اپنی زندگی میں انجام دیئے کسی کو پڑھادیا روزگار کا انتظام کردیا ،غریب نادار بچی کی شادی کرادی اگر حیثیت ہو تو کسی کے سر پر چھت کا سایہ کردیا پانی کا کنواں بنوادیا یہی نیکیاں رہ جانی ہے باقی آپ کی جائیداد آپکی بیوی جس دن آنکھ بند ہوگی اس دن کے بعد کیا ہوگا سب پرایا مال ہوجائیگا یہی حقیقت جو جان گیا اللہ سے لو لگاء وہ کامیاب ہے اللہ پاک سے دعا ہے آپ کو دین و دنیا میں کامیاب فرمائے اور بہشت میں اس دنیا سے انتقال کے بعد جگہ عطا فرمائے آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here