فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
72

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! دنیا فانی ہے لوگ ساری زندگی دنیا کو سمجھ رہے ہیں لوگوں میں دوسروں کی ترقی کو برداشت کرنے کا مادہ ختم ہوچکا ہے۔ اپنی فرسودہ اور گندی فکر کو بروئے کار لانے کے لئے نظر بد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر نظر بدکام نہ کرے تو قول بد بولتے ہیں۔ اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو پھر کالے جادو ٹونے والے لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اور دوسرے لوگوں کی ہلاکت کی ٹھان رکھی ہے۔ حالات گواہ ہیں کہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر دعوے کرنے والا شخص خود بھی ذلیل ہو رہا ہے اور دوسروں کی ذلت کا باعث بھی بن رہا ہے۔ کالے جادو والے بے ایمانوں کا نہ دنیا میں کچھ بنا ہے اور نہ آخرت میں کچھ بنے گا۔ سوائے اس کے کہ دوزخ کی آگ ان کا مقدر ہوگی۔ دنیا کو آج تک نہ کوئی جیت سکا ہے اور نہ جیت سکے گا حرص ولالچ وحسد نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ قناعت، صبر اور شکر کو اپنانے کی ضرورت تھی لیکن آج کا انسان ان تمام خوبیوں سے مکمل طور پر دور ہے۔ یوں سمجھئے کہ مدینہ شریف جانے والا مسافر کسی دوسری سواری پر بیٹھ کر منزل پر پہنچنے کی مکمل توقع رکھے ہوئے ہیں اس کی صحت پر اس بات کا کوئی اثر نہیں کہ یہ سواری تو میری منزل مقصود سے ہٹ کر کہیں اور جگہ پہ جارہی ہے۔ بہرحال جادو کروانے اور کرنے والوں کو خود بھی سکون میسر نہیں اور وہ اپنے برے عمل سے اچھے خاصے بستے رستے گھروں کو بھی بے سکون کر رہے ہیں۔ دنیا تو چند روزہ ہے آخر زندگی گزر ہی جائے گی لیکن مرنے کے بعد بڑوں کا انجام بہت برا ہے جو ختم ہونے والا بھی نہیں اور پھر کالے جادو والے کافروں اور دیگر کافروں کو کسی صورت چھٹکارہ بھی نصیب نہیں ہونے والا۔ باقی قرآن پاک کے بتائے ہوئے اصول ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے ضامن ہیں۔ ان پر عمل پھیرا ہوکر ہم ایک اچھے اور معاشرے کے لئے مفید انسان بن سکتے ہیں۔ اب قرآن پاک کی آیات طیبات کے تراجم لکھے جاتے ہیں جن سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ جس سے اللہ اور اس کے پیارے محبوبۖ راضی ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے کہ پرہیز گار وہ لوگ ہیں جو بن دیکھے ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں۔ اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو ایمان لاتے ہیں اس (کتاب) پر جو تیری طرف اتاری گئی اور اس(ہدایت) پر بھی جو تجھ سے پہلے اتاری گئی۔ اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے اب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں(سورہ بقرہ آیت اتا٣)باقی ہمیں چاہئے کہ جب کوئی اچھی چیز دیکھیں تو ماشاء اللہ کہیں اور جب کوئی خوشی ملے تو الحمدللہ کہیں اور جب کوئی غم کی خبر سنیں تو اِناّللہ وَاناّالیہ راجعون پڑھیں کسی کی اچھی چیز دیکھ کر چلنا اور سٹرنا نہیں چاہئے۔ بلکہ اس کی مزید بہتری کی دعا کرنی چاہئے۔ باقی دولت مندوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور غرور اور تکبر سے بچنا چاہئے کیونکہ بعض اوقات صاحبان مال کے تکبر اور غرور کی وجہ سے بھی چھوٹے لوگوں میں شر پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے:ترجعہ:مومن تو بس وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھھی جاتی ہیں تو وہ ان کا ایمان اور بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے خرچ کرتے ہیں وہی سچے مئومن ہیں۔ مزید فرمایا: ترجعہ: جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور قول وقرار کو نہیں توڑتے اور جو اس رشتہ کو ملائے رکھتے ہیں جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اپنے پروردگار سے ڈرتے اور برے حساب سے ڈرتے ہیں اور وہ جو اپنے پروردگار کی خوشنودی چاہنے کے لئے صبر کرتے اور نماز پڑھتے اور جو مال ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے چھپا کر بھی(صدقات نافلہ) اور اعلانیہ بھی(صدقات واجبہ) راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے بدی کو دفع کرتے ہیں یہی لوگ وہ ہیں جن کے لئے آخرت کا گھر ہے۔
مزید فرمان خداوندی ہے:ترجعہ:اور جنہوں نے اپنے پروردگار کا لحاظ کرکے صبر کیا اور نمازیں پڑھیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا تھا اس میں سے چپکے اور ظاہر خرچ کیا اور جنہوں نے برائی کے مقابلے میں نیکی کی، یہی لوگ ہیں جن کی زندگی کا انجام اچھا ہے، مزید فرمایا:ترجعہ:(مسلمانو!)جو تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضرور انہیں زمین میں اپنا نائب(حاکم) مقرر کرے گا جیسا کہ ان لوگوں کو نائب مقرر کیا تھا جوان سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ اور ان کے لئے ان کا وہ دین ضرور قائم کرکے رہے گا جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کو حالت خوف( میں مبتلا رہنے) کے بعد)نقشہ احوال کو تبدیل کرکے) انہیں اس حالت سے بہرہ مند کرے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے کسی کو میرا شریک نہیں کریں گے اور جس نے اس(عطاوبخشش)کے بعد بھی ناشکری کی تو وہ لوگ بدکار ہیں اور مزید فرمایا:ترجعہ: اور(اللہ کے بندے) وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں اور جو خدا کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود(کی حیثیت دے کر) نہیں پکارتے اور کسی شخص کو ناحق(بغیر قانونی جواز کے) جان سے نہیں مارتے کیونکہ جان لینے کو خدا نے حرام کر رکھا ہے۔ اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بہرحال انسانیت کی ہر دور میں قدر ہے۔ انسانیت یہی ہے کہ مال دو لوگ غریبوں کا خیال رکھیں اور غریب لوگ صبروتحمل سے اپنی زندگی گزاریں۔ اور برابری والے لوگ حسدوبغض سے اپنے دلوں کو پاک رکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہر شریر کے شر سے محفوظ فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here