نیویارک (پاکستان نیوز) صدر بائیڈن نے امیگریشن قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے بہت محتاظ رویہ اختیار کیا ہوا ہے، اقتدار میں آنے سے اب تک وہ سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے متعارف کروائی گئی بہت سخت امیگریشن پالیسیوں کو بھی ختم نہیں کر سکیں ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مختلف تحقیقاتی رپورٹس میں بائیڈن کو امیگریشن کی حساس پالیسیوں سے دور رہنے کا مشور دیا گیا شاید یہی وجہ ہے کہ بائیڈن نے اس معاملے پر کانگریس پر چھوڑ رکھا ہے جیسا کہ یہ کچھ ترقی پسندوں کے لیے مایوس کن ہے، بائیڈن کی پالیسیوں کے پیچھے ایک سیاسی حساب کتاب ہے ، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امیگریشن ممکنہ طور پر بڑے سیاسی ردعمل کا باعث بنتی ہے اور بائیڈن نے فیصلہ کیا کہ امیگریشن کو نظر انداز کرنا ہی موجودہ دور میں فائندہ مند ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا باقی ایجنڈا مکمل ہو گیا۔البرٹو الیسینا اور مارکو ٹیبیلینی کی تحقیق سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ تارکین وطن اکثر ردعمل کا باعث بنتے ہیں، تارکین وطن مخالف جماعتوں کی حمایت میں اضافہ کرتے ہیں اور مقامی لوگوں کے درمیان دوبارہ تقسیم اور تنوع کی ترجیحات کو کم کرتے ہیں۔کرسٹوفر کلاسن اور لارین میک لارن کی ایک اور حالیہ تحقیق نے یورپی ممالک میں امیگریشن پر توجہ مرکوز کی ہے۔جرمنی میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے 10 لاکھ پناہ گزینوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تو انتہائی دائیں بازو کی AfD نے اتنی نشستیں حاصل کیں کہ وہ ملک کی مقننہ میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بن گئی ۔ اس لیے شاید بائیڈن اسی وجہ سے امیگریشن پالیسیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور یہ معاملہ کانگریس کو حل کرنے کیلئے وقت دے رہے ہیں ۔