واشنگٹن( ندیم منظور سلہری سے) واشنگٹن کی نظریں جمعرات اور جمعہ کو شروع ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس پر جمی ہوئی ہیں امریکی ماہرین اس کانفرنس کو غیر معمولی اہمیت کی حامل قرار دے رہے ہیں۔ چین، روس، بھارت اور وسطی ایشیائی رہنما ازبکستان میں منعقدہ کانفرنس کے سربراہی اجلاس میں آمنے سامنے ہوں گے۔اس میٹنگ کا مقصد تنظیم کے اراکین کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔ اس سمت میں روسی صدر ولادیمیر پوتن یوکرین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے چینی صدر شی سے خصوصی ملاقات کریں گے۔ پیوٹن کے یوکرین پر حملے سے چند ہفتے قبل اس سال 4 فروری کو بیجنگ میں ہونے والی ملاقات کے بعد سے یہ دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلی فیس ٹو فیس ملاقات ہوگی۔ توقع ہے کہ سربراہی اجلاس میں توانائی کے تعاون پر بھرپور توجہ مرکوز کی جائے گی کیونکہ بین الاقوامی طور پر منظور شدہ ایران SCO کی مکمل رکنیت حاصل کر لے گا جبکہ مصر، قطر اور سعودی عرب مبصر کی حثیت سے کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ بیجنگ ایران اور روس سے تیل اور گیس کی درآمدات کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتا ہے ان دونوں ممالک پر مغرب کی طرف سے پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ چینی زرائع ابلاغ کے مطابق صدر شی کے دو وسطی ایشیائی ممالک کے دورے سے یہ ظاہر ہو گا کہ چین نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور ایک مشترکہ مستقبل کے ساتھ قوموں کو قریب لانے کا عزم کر رکھا ہے۔ سربراہی اجلاس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا کہ مشترکہ طور پر عالمی چیلنجوں سے کیسے نمٹا جائے اور سلامتی اور ترقی کو فروغ دیا جائے؟ شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڑانگ منگ کا کہنا ہے کہ ایس سی او کے فریم ورک کے مطابق رکن ممالک اہم اقتصادی ترقی، لوگوں کی زندگیوں میں زبردست بہتری اور ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او ہمیشہ سے حقیقی کثیرالجہتی کے لیے پرعزم رہا ہے، تسلط پسندانہ اور غنڈہ گردی کے ہتھکنڈوں کی مخالفت کرتا رہاہے۔ گزشتہ سال ایس سی او نے ایران کو مکمل رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے طریقہ کار شروع کیا تھا۔ اس کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی سطح پر پابندیاں عائد ہیں۔ تاہم تہران اب بھی ایک نئے معاہدے کی امید کر رہا ہے۔