ماسکو(پاکستان نیوز) روس نے جدید بلٹ پروف فوجی لباس کی تیاری کا منصوبہ بنایا ہے۔دفاعی ادارہ کے مطابق جدید بکتر بند لباس جنگ میں سپاہیوں کوسپر ہیومن بنا دے گا، روس کے سرکاری دفاعی ادارے ”روستیک“ نے اعلان کیا ہے۔ کہ وہ دنیا کا جدید ترین فوجی لباس تیار کرے گا جو اتنا مضبوط ہوگا کہ اگر طاقتور مشین گن سے بھی اس پر گولیاں برسائی جائیں تو اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ واضح رہے کہ 0.50 کیلیبر مشین گن (جسے ”ففٹی کیلبر مشین گن“ بھی کہا جاتا ہے ) دنیا کی طاقتور مشین گنوں میں شمار ہوتی ہے۔ ”روستیک“ کی پریس ریلیز میں اسی مشین گن کا حوالہ دیا گیا ہے۔یہ لباس، جسے صحیح معنوں میں ”فوجی زرہ بکتر“ کہنا چاہئیے ، روس میں ”سوتنک“کے عنوان سے تیار ہونے والے فوجی لباس کی ”چوتھی نسل“ ہے جس میں موجودہ یعنی ”تیسری نسل“ کی خوبیاں اور بھی بہتر بنائی جائیں گی۔”سوتنک کومبیٹ آرمر“ کی تیسری نسل جدید ترین فوجی آلات کے علاوہ نائٹ وڑن (اندھیرے میں دیکھنے کا نظام)، واٹر فلٹر اور اندرونی مواصلاتی نظام سے لیس ہے جبکہ یہ لباس 7.62 ملی میٹر کیلیبر والی رائفل کی گولیاں برداشت کرسکتا ہے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ”سوتنک“ کی اگلی (چوتھی) نسل کے لباس میں یہی بلٹ پروف خاصیت واضح طور پر بہتر بنائی جائیں گی۔ یعنی چھوٹی موٹی پستول اور رائفل کے علاوہ طاقتور مشین گن سے فائر ہونے والی گولیاں تک اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔امریکی ویب سائٹ ”ٹاسک اینڈ پرپز“ نے اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں روس کے مذکورہ فوجی لباس کو پیدل دستوں (انفینٹری) کے لیے ”مستقبل سے ہم آہنگ“ اور متاثر کن ایجاد بھی قرار دیا ہے۔روستیک کے مطابق ”سوتنک“ کی اگلی نسل 2035 تک روسی فوج کے سپرد کردی جائے گی۔ اگرچہ سوتنک کی موجودہ (تیسری) نسل کے لباس کی گزشتہ جمعے کو روس میں باقاعدہ رونمائی کی جاچکی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ کب تک روسی فوجیوں کے استعمال میں آنا شروع ہوگا۔دوسری جانب ایک اور امریکی ویب سائٹ ”فیوچر اِزم“ نے جدید ترین ”سوتنک“ کو ایک ایسا فوجی لباس قرار دیا ہے جو سپاہیوں کو دورانِ جنگ ”فوق انسان“ (سپر ہیومن) صلاحیتوں سے مالا مال کردے گا۔یہ بات یقیناً دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ حالیہ چند برسوں کے دوران امریکی ذرائع ابلاغ بہت تواتر سے چین اور روس میں ہونے والی عسکری تحقیق و ترقی (ملٹری ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ) کے بارے میں کچھ زیادہ ہی خبریں شائع کررہے ہیں اور اس حوالے سے افواہوں تک کو حقیقت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔یہ تقریباً وہی انداز ہے جو ماضی کی ”سرد جنگ“ (کولڈ وار) کے زمانے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں اختیار کیا جاتا تھا۔