غیرت یا بے حسی!!!

0
82
ماجد جرال
ماجد جرال

بلوچستان واقعہ نے ہر ذہین کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے،اس بار وجہ وہی پرانی ہے”غیرت”۔ ایک ایسا لفظ جو صدیوں سے ظلم کی چادر اوڑھ کر بے گناہوں کے خون سے لت پت ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی، جنہوں نے اپنی پسند سے شادی کرنے کی جسارت کی، بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ انہیں محض اس “جرم” پر مار دیا گیا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کی جرات کی تھی۔یہ واقعہ نہ پہلا ہے نہ آخری ہوگا، پاکستان، بالخصوص قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں میں ہر سال سینکڑوں نوجوان غیرت کے نام پر مارے جاتے ہیں، اور معاشرہ خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا واقعی یہ “غیرت” ہے یا محض اندھی رسم و رواج، جھوٹی انا اور صدیوں پرانی مردانہ بالادستی کا تسلسل؟ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کسی عورت کا اپنے فیصلے پر اصرار کرنا، اور کسی مرد کا اس کا ساتھ دینا، بدترین گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ ریاست خاموش، ادارے مفلوج، اور معاشرہ مصلحت کا شکار ہے۔ انصاف کا کوئی نظام نظر نہیں آتا اور اگر کہیں انصاف کی کرن چمکتی بھی ہے تو مقامی جرگہ سسٹم یا بااثر خاندان اسے بجھا دیتے ہیں۔بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک المیہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی جرم ہے۔ ریاست کی خاموشی، میڈیا کی بے رخی اور عوام کی بے حسی نے اس ظلم کو معمول بنا دیا ہے۔ کچھ دن شور ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر چند پوسٹیں لگتی ہیں، اور پھر اگلا واقعہ اس پچھلے ظلم کو دبا دیتا ہے۔ہماری “غیرت” سوشل میڈیا پر نازیبا لباس دیکھ کر کیوں نہیں جاگتی ہے، کسی کی بہن بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہماری غیرت کہاں مر جاتی ہے، جب ایک زندہ انسان اپنے جذبات، محبت اور فیصلے کی قیمت جان سے چکاتا ہے تو ہم خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ ہم اس ظلم پر خاموش رہتے ہیں کیونکہ مرنے والے ہم میں سے نہیں ہوتے، یا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب دور دراز علاقوں کا مسئلہ ہے مگر کب تک؟یہ “غیرت کے نام پر قتل” کا مسئلہ صرف بلوچ، پشتون یا سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود نہیں، ایسے کئی واقعات نے پنجاب میں بھی سر شرم سے جھکائے ہیں۔ یہ ایک سوچ ہے، ایک ذہنیت ہے، جو پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنے کے لیے صرف قوانین نہیں، بلکہ اجتماعی شعور کی بیداری، مذہبی و ثقافتی اصلاح، اور نوجوان نسل کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو ہر آنے والا دن مزید ایسے واقعات کو جنم دیتا رہے گا اور دنیا بھر میں ہماری رسوائی کا سبب بنتا رہے گا۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ والدین سوچ سمجھ کر اچھی جگہ اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں تاکہ ان کا مستقبل محفوظ رہے، مگر ہماری مرضی اور انا کے خلاف کوئی کام ہو جائے تو اس کو ہم غیرت کے نام پر گولیوں کی صورت میں سر چھلنی کر کر کسی طور معاشرے کی بھلائی نہیں کر رہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے اندر جھانکیں، اور فیصلہ کریں: ہم غیرت مند ہیں یا ظالم؟ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا ظالم کے خاموش سہولت کار بنے رہیں گے؟تاریخ فیصلہ ضرور کرے گی اور اگر ہم نے اب بھی خاموشی نہ توڑی، تو وہ فیصلہ ہمارے حق میں نہیں ہوگا، ہمیں غیرت اور بے حسی میں فرق نمایاں کرنا ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here