پاکستان میں 26 ویں ائینی ترمیم بالاخر کرنے کے بعد وہی پرانا ڈرامہ دوبارہ ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا ہے جس میں حکومت اپنی فتح اور اپوزیشن آئین کی پامالی کا رونا رو رہی ہے۔ اس میں شاید کوئی حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان میں حکومتی اراکین انہی کاموں اور اپوزیشن انہی احتجاج کے لیے رکھی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا آئینی ترمیم سے پاکستان کے سیاسی انتشار اور عدم استحکام جیسے مسائل حل ہو جائیں گے۔چلیں ایک سادہ سی بات سمجھ لیتے ہیں کہ ائین ہوتا کیا ہے۔ہم مان لیتے ہیں کہ آئین وہ چند اصول ہیں جن پر عمل کرنا ملک کے ہر ادارے کے لیے لازم ہوتا ہے، یہ اصول ہر ادارے کو ان کے معاملات اور کاموں کے تعین میں مدد دیتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں ہر اداری آئین کے تقویض کردہ کردار اور اختیار سے نالاں نظر آتا ہے۔فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے مگر وہ سیاست میں مشغول نظر آتی ہے، عدلیہ کا کام انصاف کرنا ہے مگر وہ بیوروکریٹک انداز میں کام کرنے کی خواہاں ہے، بیوروکریٹ جج بننا چاہتے ہیں اور سیاست دان خود کو فوجی مانتے ہوئے صرف یس سر سننا چاہتے ہیں۔ان خواہشات نے ہمارے ملک کے آئین کو اس قدر معمولی بنا کر رکھ دیا ہے کہ اب اس کے ساتھ کھلواڑ کرنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں رہا۔موجودہ آئینی ترمیم میں کسی قسم کا شک نہیں کہ صرف عدلیہ کو ٹارگٹ کیا گیا، سیاست دانوں کے پاس اگرچہ جواز یہ ہے کہ انہیں عدلیہ نے اس قدر دیوار سے لگا دیا تھا کہ اب ایسا کرنا پارلیمنٹ کی مجبوری بن گئی تھی اور یہ بات کسی حد تک مناسب بھی ہے لیکن بات یہی ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے نہ تو پارلیمنٹ مضبوط ہوگی اور نہ ہی فوج اور عدلیہ کا نشانہ بننے سے سیاستدان بچ پائیں گے۔سیاست دان کوئی ایک بات سمجھنی چاہیے کہ وہ جب بھی کسی کے لیے کوئی گڑھا کھودتا ہے تو ایک نہ ایک دن اس میں ہمیشہ خود ہی گرتا ہے،اسی آئینی ترمیم کو دوبارہ کیسے سیاست دانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے یہ مستقبل میں بالکل واضح ہوجائے گا۔سیاست دان اگر مضبوط ہونا چاہتے ہیں تو پھر انہیں سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو سے سازشی رابطے منقطع کرنا ہوں گے اور پارلیمنٹ کے اندر رہ کر پارلیمانی اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا۔اس کا فائدہ شاید آصف زرداری، نواز شریف یا عمران خان تو نہ دیکھ سکے مگر پاکستان کی آنے والی نسلیں ضرور پارلیمنٹ کی مضبوطی کی صورت میں دیکھ سکیں گے۔
٭٭٭