سیاسی مکالمہ اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ!!!

0
67

وزیراعظم شہبازشریف نے قومی معاملات پر مذاکرات کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے نفرت کی سیاست ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اسلام آباد میں مفتی محمود کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مژدہ سنایا کہ پاکستان مشکل حالات سے نکل آیا ہے۔تصادم کے ان گنت مظاہروں کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے قومی امور پر مشاورت اور نفرت کی سیاست ختم کرنے کی بات کر کے دانشمندانہ راستہ دکھایا ہے۔ ریاستی نظام میں ہمیشہ ایسے اداروں کو احترام اور استحکام دیا جاتا ہے جو قومی مکالمہ اور مشاورت کا پلیٹ فارم بنتے ہیں۔ ایک پارلیمانی جمہوری ریاست کے طور پر پارلیمنٹ کو مشاورت اور داخلی مکالمے کا اعلی ترین ایوان سمجھا جاتا ہے۔ مدت سے دیکھا جارہا ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کی ساکھ تباہ کی جا رہی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کی روایت نے پارلیمنٹ کے وقار کی دھجیاں اڑائیں۔ بلاشبہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا دامن اس کاروبار سے داغدار ہے۔ چھانگا مانگا اور مری اسی حوالے سے بدنام ہوئے۔ حالیہ عرصے میں اسلام آباد کا سندھ ہائوس ہارس ٹریڈنگ کا مرکز بن کر سامنے آیا۔ المناک بات یہ ہے کہ آئین میں تحریک عدم اعتماد کی گنجائش تلاش کرنے والوں نے ہمیشہ یہ گنجائش غیر اخلاقی تصور کی جانے والی سرگرمیوں کی مدد سے استعمال کی۔ کہنے کو یہ عمل غیر قانونی نہیں لیکن معاشرے کے بڑے حصے نے اسے بے اصولی اور قابل نفرت عمل کے طور پر دیکھا۔ پارلیمنٹ کی ساکھ کو خراب کرنے میں دوسرا کردار اراکین کے غیر سنجیدہ طرز عمل نے ادا کیا۔اراکین کی بڑی تعداد ایوان میں نہیں آتی، پارلیمنٹ کے فلور پر ان مسائل پر بات نہیں کی جاتی جو عوام کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کو صرف حلقے کی سیاست بچانے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے۔ ملک کو ترقی دینے کے لیے ڈیمز جنگلات جدید ٹیکنالوجی اور نئے ہنر کی جو ضروریات ہیں انہیں پورا کرنے کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہوتے۔ بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آمدن کم ہو رہی ہے ملک پر قرض بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ نظام انصاف عوام کی بجائے خواص کو تحفظ دینے تک محدود رہ گیا ہے۔ ایسے میں کون یہ تسلیم کرے گا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ عام آدمی کے نمائندے ہیں۔ پارلیمنٹ سے باہر مکالمے کا ماحول مسلسل خراب کیا جارہا ہے۔ ہر سیاسی جاعت نے ان لوگوں کو نمایاں عہدے دے رکھے ہیں جو اپنے مخالفین کے خلاف بازاری زبان استعمال کرتے ہیں۔ سیاست کے نام پر ذاتیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھٹو دور میں یہ روایت شروع ہوئی۔ نوازشریف نے بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے خلاف اسے عروج دیا اور اب خیر سے کوئی جماعت ایسی نہیں جس نے بد زبانوں سے بچنے کے لیے ایسے دوچار بدزبان نہ رکھے ہوں۔ اس سے سیاسی ڈائیلاگ کی بجائے الزام تراشی گالی آڈیو اور ویڈیو جاری کرنے کی مسابقت نے فروغ پایا ہے۔ جس وقت وزیراعظم کنونشن سنٹر میں مفتی محمود کانفرنس کے شرکا کے سامنے نفرت کی سیاست ختم کرنے کی بات کر رہے تھے اسی وقت وہ ایک سابق وزیراعظم اور بڑے اپوزیشن رہنما کو فراڈیا کے نام سے پکار کر اچھے تاثر کو ختم کر رہے تھے۔پاکستان میں اس وقت محاذ آرائی عروج پر ہے۔ قانونی اورسیاسی جنگ نے سماج اور اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد چاہتی ہے کہ ملک میں استحکام پیدا ہو تاکہ کاروبار کا ماحول بن سکے۔ حکومت مقامی وسائل کوصرف ٹیکس وصولیوں کے تناظر میں اہمیت دیتی ہے۔ سماج میں نظام بدلنے اور سیاسی روایات تبدیلی کرنے کی شدید خواہش کا احساس حکمران اشرافیہ تک نہیں پہنچا۔ دو متحارب فریق اسی وقت ایک دوسرے سے مکالمہ پر راضی ہو سکتے ہیں جب ان کے درمیان مشترکہ دلچسپی کے نکات پر اتفاق ہو۔ سماج کا وہ حصہ جو ہر با اختیار کے احتساب کا مطالبہ کرتا ہے، انتخابی دھاندلی کو روکنا چاہتا ہے پولیس اور عدالتی نظام کو عوام دوست بنانا چاہتا ہے۔ ریاستی وسائل کو محروم طبقات کی بہبود پر خرچ کرنا چاہتا ہے۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات کے بعد انتخابی دھاندلی کے الزامات مسلسل وارد ہوتے رہے ہیں۔ بہتر ہو تاکہ تمام جماعتیں انتخابی عمل کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے اصلاحات پر ایک دوسرے سے بات چیت کرتیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوئی۔ اس دن سے لے کر اب تک ملک میں سیاسی استحکام نظر نہیں آ رہا۔ اس عدم استحکام نے بیرونی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کو ایک بھکاری سمجھا جانے لگا ہے جو اپنے وسائل کوترقی دے کر خوشحال ہونے کی بجائے حیلے بہانے سے دوسرے ممالک سے امداد کا منتظر رہتا ہے۔ پاکستان کا یہ منفی تشخص تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہی نفرت کی سیاست کو ختم کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے تو وہ اپنا لانگ مارچ اور احتجاجی سرگرمیاں روکنے پر آمادہ ہیں۔ ملک بھر میں موڈ بدل چکا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت دل بڑا کرے اور نئے انتخابات کا اعلان کرنے کے ساتھ ان تمام امور پر ایک بڑی مشاورت کا آغاز کرے جو ملک کا وقار امن ساکھ ترقی اور جمہوری شناخت پر ضرب لگا رہے ہیں۔ ضد اور انا ریاست سے بڑی نہیں ہونی چاہئے، ایک بار بات چیت کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو سیاسی انتقام کا معاملہ بھی خود بخود طے ہو سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here