پاکستان میں مہنگائی کا ایک طوفان ہے جسے کنٹرول کرنے کے لیے حکومت وقت اپنی تمام تر توانائیاں لگانے پر کمر بستہ ہے ،مہنگائی کی وجہ روپے کی ڈالر کے مقابلہ میں بے قدری ہے جس کا براہ راست اثر ہماری تمام درآمدی اشیا پر پڑتا ہے، گیس ، پٹرول، ڈیزل40 سے 84 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گیا ہے جس سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا ، مطلب ڈالر کی بے قدری کے ساتھ تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں ڈبل ہونے سے پاکستان میں مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا، خوردنی تیل جس سے گھی بھی بنتا ہے ،دالیں، بچوں کے لیے سوکھا دودھ اور بہت سی اشیا جن کا لین دین ڈالر میں ہوتا ہے اور ڈالر اب اوپن مارکیٹ میں ہے پچھلی حکومتوں کی طرح رقم خرچ کر کے ڈالر کنٹرول نہیں کیا جاتا اوپر سے افغانستان کی صورت حال جہاں ڈالر سمگل ہو رہا ہے ،مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ کرونا کی وبا ہے کہ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئیں ،لوگ روزگار سے محروم ہوئے، لاک ڈائون لگے تاہم ترقی یافتہ ممالک نے خصوصی مراعات عوام کو دیں جس سے گھر بیٹھے کام کئے بغیر لوگوں کو کھانے ،پینے اور روزمرہ کی ضروریات ملنے لگیں، امریکہ نے ایک ٹریلین ڈالرز سے زائد اپنے لوگوں میں بانٹے ،یورپ نے بھی خزانوں کے منہ کھول دئے پاکستان میں بھی اپنی چادر دیکھتے ہوئے آٹھ بلین ڈالرز سے ریلیف دیا گیا اپوزیشن کے واویلہ کے باوجود حکومت پاکستان نے سمارٹ لاک ڈائون لگایا جس سے معاشی سرگرمیاں رکی نہیں اور ہم مکمل تباہی سے بچ گئے جسے دنیا نے بھی سراہا ۔اس کے علاوہ مہنگائی کا سبب سپلائی چین میں رکاوٹ گنی جاتی ہے ترقی یافتہ ملکوں کے مزدور حکومت کی طرف سے دی گئی مراعات لیکر گھر بیٹھ گئے تاکہ کرونا مزید نہ پھیلنے پائے ۔سامان سے بھرے کنٹینرز بندرگاہوں اور جہازوں میں لدے پڑے ہیں، انہیں اتارنے کیلئے مزدور فی الوقت میسر نہیں ہے ،لہٰذا کنٹینرز پھنس گئے حال ہی میں منعقدہ بڑے بیس ممالک کے سربراہی اجلاس میں بھی اسی بات کی گونج تھی جو کنٹینر آج سے ایک سال پہلے تین ہزار میں امریکہ پہنچتا تھا وہ آج اٹھارہ ہزار میں پہنچ رہا ہے اور واپسی مشکل سے ہوتی ہے۔ مہنگائی نہ ہو تو اور کیا ہو اوپر سے نونی جنونی زخیرہ اندوز جو مصنوعی مہنگائی کرتے ہیں جسکے پیچھے موجود اندرونی، بیرونی، طاقتیں یا اپوزیشن کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں ،چینی کے ذخیرہ اندوزوں کے لیے چھاپہ مار ٹیموں کو لاہور ہائی کورٹ نے چھاپے مارنے سے روک دیا، مہنگائی تو ہوگی ہمیں پاکستان میں بڑے تحمل اور برداشت کی ضرورت ہے اپوزییشن والے مہنگائی کو ایشو بنا کر حکومت گرانا چاہتے ہیں فرض کریں اگر کسی طریقے سے حکومت گرا بھی لی گئی تو مہنگائی تو پھر بھی ان سے کنٹرول نہیں ہو گی کہ انکے بس کی بات ہی نہیں ہے انکے اپنے پچھلے ادوار میں مہنگائی کی شرح تیرہ فیصد تک پہنچی ہوئی تھی وہ عمران خان جو 34سیٹوں سے سنبھالا نہیں گیا اب 136 سیٹوں سے بھلا سنبھلے گا؟ جبکہ پی ڈی ایم کی خیالی حکومت میں گیارہ جوتیوں میں دال بٹے گی باقی میڈیا کے منہ کو خون لگا ہے وہ جلتی پہ تیل ڈال رہا ہے تیل تو ویسے بھی مہنگا ہے اور الیکٹرانک میڈیا اسی بہانے اچھی قیمت وصول کررہا ہے۔
٭٭٭