نیویارک(پاکستان نیوز) سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 22-2021 کے دوران امریکا میں پاکستانی طلبہ کی تعداد میں سالانہ 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے واشنگٹن میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کے لیے امریکا پہلی ترجیح رہا ہے جہاں بنگلہ دیش، نیپال، بھارت اور پاکستان سے آنے والے طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کی فہرست میں بنگلہ دیش سے آنے والے طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے جن کی تعداد میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ بھارت سے آنے والے طلبہ کی تعداد میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کے پاس دنیا میں سب سے بڑا امریکی معاونت والا فل برائٹ پروگرام بھی ہے جس کے تحت سالانہ 150 پاکستانی طلبہ امریکی جامعات میں اعلی تعلیم کے لیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا ہر سال 800 پاکستانی طلبہ کی ایکسچینج پروگرام میں مالی معاونت کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا میں امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے ایکسچینج پروگراموں کے سابق طلبہ کے سب سے بڑے نیٹ ورک کا مرکز ہے۔ اوپن ڈورز رپورٹ آن انٹرنیشنل ایجوکیشنل ایکسچینج نامی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ چین اور بھارت بین الاقوامی طلبہ کے سب سے بڑے ذرائع ہیں جہاں تمام عالمی طلبہ کے مقابلے دونوں ممالک کے 52 فیصد طلبہ امریکا میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جہاں عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے امریکا اور چین کے درمیان سفر پر پابندی تھی وہاں کچھ سیاسی کشیدگی نے بھی مسائل کو جنم دیا، مگر اب چینی والدین اس بات سے مطمئن ہیں کہ ان کے بچے امریکا میں محفوظ ہیں۔ رواں برس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 21-2020 میں بیرون ممالک پڑھنے والے امریکی طلبہ کی تعداد میں 91 فیصد کمی آئی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ کورونا وائرس ہے، جہاں امریکا کے 62 فیصد کالجز ورچوئل انٹرنشپ کی پیشکش کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں بین الاقوامی طلبہ میں 46 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے، جہاں اب امریکا میں 10 لاکھ کے قریب بین الاقومی طلبہ کی بحالی شروع ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ تعداد میں سال 2020 میں امریکا میں 10 لاکھ کے قریب بین الاقوامی طلبہ کے مقابلے میں 3.8 فیصد اضافہ دیکھا جاسکتا ہے مگر پھر بھی یہ تعداد 2018 میں رپورٹ ہونے والے تقریبا 11 لاکھ بین الاقوامی طلبہ سے بہت کم ہے۔