دو کھوپڑیاں !!!

0
127
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

حجتہ الاسلام امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب مکاشفتہ القلوب میں لکھتے ہیں۔ ذوالقرنین بادشاہ چلتے چلتے ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو کسی قسم کا سامان حتی کہ جانور تک نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے قبریں کھود رکھی تھیں ،صبح صبح وہ قبروں کی زیارت کو چلے جاتے، قبروں کی صفائی کرتے ،قبروں کے پاس عبادت کرتے اور شام کو واپس چلے آتے۔ کھانے کے لئے جو سبزیاں گھاس خودبخود اُگتی انہیں پر گزارا کرتے ذوالقرنین بادشاہ نے اپنا ایک فوجی بھیج کر اس قبیلے کے سردار کو بلایا۔ سردار نے اس ہر کار سے کہا مجھے ذوالقرنین سے کیا لینا دینا۔ میں اس سے کیوں ملوں، مجھے تو اس سے کوئی کام نہیں۔ ہاں اگر اسے کوئی کام ہے تو وہ آکر مل سکتا ہے ۔ذوالقرنین نے کہا بات تو صحیح ہے کام تو مجھے ہے ان کی اس حالت کے بارے پوچھنا میں نے ہے۔ لہٰذا مجھے ہی جانا چاہئے، ذوالقرنین خود چل کر سردار کے پاس پہنچا اور پوچھا سردار میں نے دنیا دیکھی ہے میں نے کسی قسم کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا جو حالت تمہاری ہے۔ سردار نے کہا آپ کس حالت کی بات کر رہے ہیں۔ ذوالقرنین نے کہا یہی کہ تمہارے پاس مال ومتاع مال ومنال کچھ بھی نہیں ہے۔ جس سے بہرہ مند ہوسکو۔ سردار نے کہا ہم سونا چاندی جمع کرنا برُا سمجھتے ہیں۔ چونکہ جس کو یہ چیزیں ملتی ہیں وہ اس میں مگن ہو کر اس سے اچھی چیز کو بھلا دیتا ہے۔ اس لئے ہم نے قبریں کھود رکھی ہیں۔ ہم روزانہ ان کی صفائی کرتے ہیں۔ اور اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ تاکہ جب ہم قبروں کو دیکھیں گے وہ ہمیں نیا سے بے نیاز کردیں گی۔ ہمیں حرص سے روک دیں گی۔ ذوالقرنین نے کہا میں نے دیکھا ہے تمہاری غذا سوائے جنگلی گھاس پھوس کے کچھ نہیں تم جانور کیوں نہیں پالتے تاکہ تم ان کا دودھ پیو۔ ان پر سواری کرو۔ سردار نے کہا بادشاہ سلامت ہمیں کیا ضرورت ہے۔ کہ جانوروں کے پیٹ کو ان کی قبریں بنائیں۔ ہم زمین سے کافی غذا حاصل کر لیتے ہیں۔ جو کافی ہے کھانا جیسا ہی ہو۔ حلق سے اترنے کے بعد اپنی لذت کھو دیتا ہے۔ سردار نے کہا ٹھہرو، وہ دو کھوپڑیاں اٹھا لایا۔ اور کہا جانتے ہو یہ کس کی کھوپڑی ہے یہ ایک بادشاہ کی کھوپڑی ہے۔ جس کو بادشاہت ملی۔ اس نے ظلم وستم کا بازار گرم کیا۔ بے رحم جانور بن گیا بالآخر موت نے آلیا۔ اب اس نے جو کیا وہ اللہ کے پاس محفوظ ہوگیا اور کھوپڑی میرے ہاتھ میں ہے پھر دوسری کھوپڑی اٹھائی۔ کہا یہ بھی ہمارے علاقے کا ایک بادشاہ تھا۔ اس کو حکومت ملی اس نے امن وامان قائم کیا۔ رواداری محبت صلہ رحمی کو فروغ دیا۔ پورا معاشرہ باغ و بہار ہوگیا۔ اس نے بھی جو کیا وہ اللہ کے پاس محفوظ ہوگیا۔ اور اس کی کھوپڑی میں میرے ہاتھ میں ہے۔ بظاہر دونوں کھوپڑیاں ایک جیسی ہیں۔ مگر انجام ایک جیسا نہیں ہے پھر ذوالقرنین کی کھوپڑی کی طرف اشارہ کیا۔ اور کہا یہ بھی ایسی ہی جائے گی۔ خیال رکھنا اعمال کیسے کر رہے ہو سو میرے بچو۔ بھائیو اور دوستو کیا بائیڈین، نتین یاہو، میکرون، محمد بن سلمان اردوان خلیجی امیروں کی کھوپڑیوں کا الگ استقبال ہوگا، مال کا، اسلحے کا، ایٹم بم کا حساب تو ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here