”موجودہ صورتحال بھونچال کا پیش خیمہ”

0
100
جاوید رانا

قارئین کرام اتوار کو 12 ربیع الاول میلاد محسن انسانیت، حبیب کبریاۖ کی ولادت کی مبارک و مسعود ساعتوں میں دنیا بھر میں اُمت مسلمہ نے جذبۂ اعمانی و حُب سرکار دو عالمۖ کا بھرپور اظہار کیا اور رب کائنات کا شکر ادا کیا کہ انہیں اُمت محمدیہ میں شامل کیا۔ ماہ مبارک کی گھڑیاں ابھی بھی جاری ہیں اور بطور اُمت نبی محترمۖ ہمارا فرض مبین ہے کہ صرف اس ماہ میں ہی نہیں بلکہ ساری زندگی اتباع حبیبۖ میں گزاریں لیکن کیا ہم اس فرض پر عمل کر رہے ہیں؟ انفرادی و معاشرتی حوالے سے جواب نفی میں ہی سامنے آتا ہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے میں اسلام کے نظرئیے پر وجود میں قائم مملکت پاکستان کے معاشرتی، اخلاقی، سیاسی و تہذیبی منظر پر نظر ڈالیں تو ساری قوم ہی اسلامی شعار و اصولوں سے منحرف نظر آتی ہے۔ قول مبارک ہے کہ جیسی قوم ہو، ویسے ہی حکمران اُس پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ وطن عزیز کے کسی بھی شعبہ کا جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں، ریاست، حکومت، سیاست، معیشت و تجارت سمیت ہر سمت منفی رجحان و عمل ہی وقت کا سکہ ہے۔
یوں تو ہم مختلف امور پر اپنے احساسات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن بات یہی ہے کہ بگڑتے ہوئے حالات اور بے حسی کے ماحول میں ہم جیسوں کے تحفظات بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہی ہوتے ہیں۔ گزشتہ کالم میں ہم نے سیاسی حالات کے حوالے سے ہر روز ہونیوالے تماشے پر اپنی معروضات پیش کی تھیں ہر گزرتے ہوئے دن کیساتھ اس تماشہ بازی میں اضافہ سیاسی انتشار بلکہ بھونچال کی طرف اشارہ مل رہا ہے جو نہ صرف ملک کی سیاسی، معاشی و معاشرتی صورتحال کی ابتری بلکہ بعض حوالوں سے ملک کی اسٹریٹجک و سیکیورٹی صورتحال کے نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ سیاسی چُپقلش میں ریاستی اداروں، عدالتی و انتظامی شعبوں کی موشگافیاں اور مداخلت اس امر کی غمازی ہے کہ ملک میں سیاسی بساط کسی بھی طرح لپیٹ دی جائے۔
سیاسی ایرینا میں ہماری ان سطور تحریر کئے جانے تک تازہ ترین گورنر سندھ کی تعیناتی کا اقدام ہے۔ اتوار کے روز کامران ٹیسوری کا بطور گورنر سندھ حلف اُٹھانا ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ زمینوں (خصوصاً ٹھٹھہ کے تاریخی قبرستان میں) کے ناجائز حصول، گولڈ کے معاہدوں سے انحراف اور ایف آئی آر و مقدما ت کے حامل شخص کے ایم کیو ایم کے نمائندے کی حیثیت سے یہ عہدہ سنبھالنا جبکہ ماضی میں اسی شخص کیخلاف ایم کیو ایم کی لیڈر شپ اس کے خلاف تھی، اب اس تعیناتی پر کیسے راضی ہوگئی بلکہ فاروق ستار اور مصطفی کمال نے بھی مبارکباد دی۔ گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے، سوال یہ کہ صدر مملکت کن وجوہ اور کس کے کہنے پر اس تعیناتی پر راضٰ ہوئے جبکہ انہیں محض واحد نام کی سفارش نہیں کی گئی تھی پھر ایم کیو ایم جو نسرین جلیل کو سندھ کی گورنر بنانا چاہتی تھی وہ بھی راضی ہو گئی۔ حالات کا تجزیہ کریں کہ متحدہ نے عمران حکومت سے علیحدگی کس کے اشارے پر اختیار کی تھی جو عدم اعتماد کی کامیابی بنی، واضح ہے کہ کھیل اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر کھیلا گیا تھا۔
عمران خان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اور بیانیہ پر دُھول ڈالنے اور اسے سیاسی منظر نامے سے باہر کرنے کے بہت سے تماشے کافی عرصے سے جاری ہیں عدم اعتماد سے آڈیو، ویڈیو لیکس تک بشمول فارن فنڈنگ، توہین عدالت، آرٹیکل 6 سارے حربے آزمائے گئے، بیک ڈور رابطے بھی ہوتے رہے حد یہ ہوئی ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے بھی عمران خان کے غیر ملکی سازش کے بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے عمران اور درآمدی حکومت کے درمیان ڈائیلاگ کرانے نیز آرمی چیف کے سیاسی و معاشی عدم استحکام اور فوج کے اس حوالے سے کردار کے بیان کو آئین و قانون کے مطابق قرار دے کر بہت کچھ بین السطور میں افشاء کر دیا ہے۔ یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ صدر عارف علوی پی ٹی آئی کے ڈائی ہارٹ قائدین اور بانیان میں ہیں تو وہ کون سے محرکات ہیں جنہوں نے انہیں متذکرہ بالا اقدامات و بیانات یا اعلانات پر مجبور کیا۔ یہ سب تو ہو ہی رہا ہے اُدھر لندن میں سابق مفرور و نا اہل وزیراعظم نے اپنا مجھے کیوں نکالا کے منترے کا دوسرا پارٹ شروع کر دیا ہے اور واپس آکر چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے فیصلے پر لندن میں تبادلۂ خیال ہو رہا ہے۔
ان تمام حقائق اور عمران مخالف حرکتوں اور پروپیگنڈے کے باوجود عمران اپنی جدوجہد اور بیانیئے پر ڈٹا ہوا ہے اور حالیہ ایک سروے کے مطابق 70 فیصد سے زائد عوامی حمایت عمران کیساتھ ہے۔ سازش سے جیل بھرو تحریک تک ہر بیانیہ عوام کے سر چڑھ کر بول رہا ہے تاہم نہ معلوم وہ کون سی وجوہات ہیں کہ لانگ مارچ کا مرحلہ ابھی تک تشنۂ اعلان ہے، کپتان نے اسے اپنا سیکرٹ بنایا ہو اہے جبکہ دوسری جانب مخالفین اپنے ہتھکنڈوں پر اداروں کی معاونت سے اُترے ہوئے ہیں۔ اینٹی کرپشن کی عدالت سے رانا ثناء اللہ کے وارنٹ گرفتاری اور اسلام آباد پولیس کی تکمیل سے معذوری، دفعہ 144 کے حوالے سے پی ٹی آئی کی درخواست خارج کئے جانے، پی ٹی آئی کے لوگوں کی فارن فنڈنگ و آڈیو ویڈیو لیکس کے حوالے سے گرفتاریاں اورالزامات جیسے تمام معاملات عمران کیخلاف مہم جوئی کے اشارے کر رہے ہیں لیکن کیا ایسا ممکن ہے۔ ہر گز نہیں بقول مبصرین یہ سب اتنا آسان نہیں۔ عمران اپنے عزم و ارادے کی پختگی کے ناطے اور عوام کی بھرپور حمایت کی بناء پر پیچھے ہٹتا ہوا نظر نہیں آتا۔ دوسری جانب برآمدی حکومت اور اس کے ہینڈرز بشمول اسٹیبلشمنٹ ایجنسیز اور بادی النظر میں دیگر ریاستی و عدالتی اسٹیک ہولڈرز اپنی تمام تر توانائیاں عمران مائنس فارمولے پر مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی صورتحال نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی عدم استحکام کو دعوت دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔
ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے اور 75 سال سے وطن عزیز میں سیاسی اُتار چڑھائو کے تناظر میں خصوصاً ملک کی سلامتی و تحفظ کے اداروں سے ہم یہی درخواست کر سکتے ہیں کہ دوسروں بلکہ غیروں کی خوشنودی کیلئے ملکی و قومی مفاد کو دائو پر لگنے سے بچائیں۔ وطن عزیز اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے، اس میں کسی بھی غیر سیاسی مداخلت یا ایڈونچر سے ملک و قوم ہی نہیں ہماری سیکیورٹی کے ضرر کا بھی احتمال ہے۔
آرمی چیف کا انتخاب ہو یا عام انتخابات آئین، قانون، شفافیت اور مفاہمت میں ہی ان کا حل ہے ورنہ حالات بھونچال کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ نتیجہ خون خرابے، بد امنی اور بربریت کے سواء کچھ بھی نہیں ہوگا۔ (حاکم بدین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here