*ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب *کامیاب زندگی کے راز* سے انتخاب: *
محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج آپ کی خدمت می آجائے دو جہاں پیارے نبی تاجدار ختم نبوت کی ولادت کے حوالے سے ڈاکٹر اعظم کا ایک خوبصورت مضمون پیش کیا جارہا ہے۔
تاریخ کے سنہرے اوراق کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ *زمانہ قدیم میں مسجد نبوی کو مور اور شتر مرغ کے پروں سے بنے ہوئے برشوں اور جھاڑوں سے صاف کیا جاتا تھا۔* ایک طویل مدت کے بعد دھول اور فرش صاف کرنے کے لئے استعمال ہونے والے ان برشوں سے مور اور شترمرغ کے پروں کو نکال کر عثمانی سلاطین کے پاس بھجوایا جاتا۔ *جنہیں وہ اپنی آنکھوں اور چہروں سے مس کرتے اور انہیں اپنی پگڑیوں کے اوپر لگاتے* ۔ عثمانی سلطان آنسو بہا کر کہتے تھے کہ *ہم رسول اللہ خادم ہیں اور ان کے مبارک شہر کی خاک کے لائق نہیں ہیں۔’* دنیا کے بادشاہ ہیرے جواہرات سے جڑے ہوئے تاج پہننے میں اعزاز محسوس کرتے تھے جبکہ مسلمان حکمران ان پروں کو اپنی پگڑییوں اور تاجوں میں لگانا اعزاز سمجھتے تھے جن سے روزہ رسول اور مسجد نبوی کی صفائی ہوتی تھی ۔ یہی وہ محبت و عشق رسول تھی جس کی برکت سے سلاطین اور عثمانی خلفا نے کء صدیوں تک تین بر اعظموں پر حکومت کی ۔ *عشق جب گہرا ہوتا ہے تو محبوب پر جان نچھاور کرنے کا مرحلہ آتا ہے ۔ اس کے قدموں کی خاک کو چوما جاتا ہے ۔ اپنے تمام مقام و مرتبے اس کے قدموں میں لٹا دیے جاتے ہیں پھر جب بھی نام نامی اسم گرامی ۖ آتا ہے تو زبان سے نکلتا ہے*
فدِاک ابی و امی یا رسول اللہ ۖ *اے کریم آقا ۖ میرے ماں باپ آپ پر قربان* ۔ آپ ۖ سے زیادہ مجھے دنیا میں کوی عزیز نہیں۔ *عشق کی دولت انسان کو نکھارتی ہے سنوارتی ہے مگر جب اس میں صداقت ہو ۔ خاص کر جب عشق عشق حقیقی ہو* ۔عشق حقیقی اور مجازی کے فرق کو اس سطر سے سمجھ لیجیے *ہر وہ چیز جس کو فنا ہے اس کا عشق عشق مجازی ہے اور ہر وہ چیز جس کو بقا ہے اس کا عشق عشق حقیقی کہلاتا ہے۔* دولت شہرت عورت سلطنت سب کو فنا ہے بقا ہے تو اللہ اور اس کے رسول کو ۔ان کے نام کو ۔ان کی کتاب کو ۔ *جس نے بھی اس عشق میں غوطہ زنی کی ہے اسے ناموری بقا عزت شہرت نامی سبھی ہیرے جواہرت حاصل ہوئے ہیں ۔
* *ابو بکر* سے صدیق *عمر* سے فاروق
*عثمان* سے ذوالنورین *علی* سے حیدر کرار
*حبشہ* سے بلال موذن رسول *روم* سے صہیب رومی
*فارس* سے سلمان فارسی عام مسلمان سے *عشرہ مبشرہ*
بننے والے اسی راہ عشق کے مسافر تھے جنہوں نے شاہراہ حیات پر اپنی منزل اپنے کریم آقا ۖ کو رکھا ۔ *آبروئے ما زنام مصطفی است* مجھے جتنی بھی عزت ملی وہ آپ ۖ کے نام پاک کے صدقے میسر ہے۔
*ذرا عروہ بن مسعود ثقفی (جو صلح حدیبیہ (ھ) کے موقع پر کفار مکہ کا ایلچی بن کر آیا تھا)* ۔دیکھیے وہ اپنے بادشاہ کی بارگاہ میں عشاق کے عشق کی کیا منظر کشی کرتا ہے ۔عروہ ہاتھ باندھے اپنے بادشاہ کی بارگاہ میں کھڑا ہے سر جھکا ہوا ہے اور جان کی امان طلب کرنے کے بعد یوں عرض کناں ہوتا ہے ۔اے بادشاہ سلامت ! *بہ خدا میں شاہان عالم، قیصر و کسری اور نجاشی کے پاس بھی گیا ہوں لیکن کسی بادشاہ کے درباری اس کی اس قدر تعظیم نہیں کرتے جتنی محمدۖکے ساتھی محمدۖ کی تعظیم کرتے ہیں، خدا کی قسم جب بھی وہ تھوکتے ہیں ان کا لعاب کسی کے ہاتھ پڑتا ہے جو اس کو اپنے چہرے اورجسم پر مل لیتا ہے، اگر وہ کوئی حکم دیں تو اس کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑتے ہیں، اگر وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کا پانی لینے کے لئے ایسا لگتا ہے کہ وہ لڑ پڑیں گے، جب وہ بات کرتے ہیں تو سب اپنی آواز پست کر لیتے ہیں اور احترام کی وجہ سے انہیں نظر بھر نہیں دیکھتے۔* عشق کا تقاضا ہی یہ ہے کہ محبوب اور محبوب سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے پیار ہو ۔ اگر یہ انتہا نہ ہو تو عشق کی کاملیت کون مانے گا۔عشق کا یہ پہلو تو عروہ کی آنکھ نے دیکھا مگر عروہ سے کہیں پہلے یہ منظر آسمان دیکھ چکا تھا جب کریم آقا ۖ کے *عاشق صادق حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ* کو کفار مکہ نے پکڑ رکھا تھا۔ذرا ان کے عشق کا معیار دیکھیے جس پر کفار نے بھی حیرت واستعجاب کا اظہار کیا ہے۔جب حضرت زید رضی اللہ عنہ کو تختہ دار پر چڑھایا جارہا تھا تو اس موقع پر ابو سفیان نے کہا کہ *اے زید ! کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تم اپنے گھر والوں کے ساتھ اطمینان سے رہو اور تمہاری جگہ پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) تختہ دا ر پر چڑھا یا جائے؟* اس موقع پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ابو سفیان کو جو جواب دیا وہ سیرت کی کتابوں میں جلی عنوان والفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: *قسم بخدا! میں تواس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام ہی پر رہیں اور انہیں کوئی کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں۔* حضرت زید رض کے اس جواب سے حواس باختہ ابو سفیان نے کہا کہ *کوئی انسان کسی انسان سے اتنی محبت نہیں کرتا جتنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں* ۔ عشق کے یہ سلسلے کوی آج سے نہیں بلکہ اس کا آغاز تو اماں حلیمہ نے جب آمنہ کے لال کو گود میں لیا تب سے ہی کر دیا تھا ۔ اماں اپنی آنکھوں سے جدا نہیں ہونے دیتی تھی اور صحابہ جب تک اپنے کریم آقا ۖ کی زیارت نہ کر لیتے انہیں نیند نہ آتی ۔ جس کو سکون نہ ملتا وہ زیارت چہرہ والضحی کے لیے چلا آتا ۔ نبوی زمانہ کے بعد ۔خلفا راشدین اور پھر تابعین تبع تابعین اور اولیا امت کا عشق رسول ہزار ہا امثلہ سیروشن ہے اقبال رحماللہ علیہ نے فرمایا
*قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے*
*دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے*
اور عشق کی وہ کون سی گہرای تھی جو بڑے بڑے شعرا کو میسر نہیں تھی وہ کون سا راز تھا جس نے اقبال رح کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا
*کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں*
*یہ جہاں چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں*
یورپ میں جا کر بھی عشق کی تمازت اقبال کے لہو کو گرم رکھتی ہے مادیت پرست ہوس زدہ برای کا سہولت کار یورب بھی اقبال کو نہ ڈگمگا سکا ۔فرمایا ۔
*خیرہ نہ کر سکا مجھے جلو دانش فرنگ*
*سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف*
۔
منقول کتاب سے اقتباس
٭٭٭