اللہ تعالیٰ نے انسانوں کیلئے دنیا میں اپنا ایک سسٹم بنایا ہے جو کوئی بھی اسے سمجھ جائے اس کی خیر ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے بنائے قانون کے مخالف چلے گا اسے فوری سزا ملتی ہے ۔ہم اکثر سزا و جزا کی بات کرتے ہیں ، آخرت کو ایک طرف رکھ دیں، صرف دنیا کی بات کریں تو قدم قدم پر تجربات کی بھرمار ہے، اللہ تعالیٰ نے بار بارپیغمبر مختلف دورمیں انسانیت کی اصلاح کیلئے مخلوق کے پاس صرف اس لئے بھیجے کہ جب انسان مسلسل اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑتا ہے اور پھر ایک وقت آ جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو مکمل فراموش کر دیتا ہے اورپھر اللہ تعالیٰ پیغمبر بھجتا ہے یا آج کے دور میں ولی اللہ بھیجتا ہے کیونکہ حضورۖ آخری پیغمبر میں اس اُولیاء اکرام یا علماء اکرام کا سلسلہ جاری ہے جو اپنے علم و تجربوں سے انسانوں کی اصلاع کرتے ہیں اکثر تجربات سے میں نے دیکھاہے کہ ہر انسان کو اچھے کاموںبا برُے کاموں کی سزا و جزا اسی دنیا میں بھی ملتی ہے لیکن اکثر انسان اسے محسوس نہیںکرتا کیو نکہ ہر انسان کی موجودہ زندگی بہت تیز ہے آج میں ایک بڑی اہم شخصیت کی مثال آپ کے سامنے رکھو نگا جس کا نام عمران خان ہے میں نے عمران خان کے ساتھ اُس وقت کام کیا تھا جس اس نے 1992میںپاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ لائے ہیں کپتان کا رول ادا کیا تھا جس کے بعد 1994میں نیو یارک کے DOWNING STADIAMمیں عمران خان کی جیتی ہوئی پوری ٹیم اور دوسری جانب تمام ورلڈ کپ میں کھلنے والی تما م ٹیموں میں سے چند اہم کھلاڑیوں کو دوسری ٹیم بنا کر میچ کرایا تھا اس کے بعد عمران خان ہر سال ایک مرتبہ آتے اور شوکت خانم ہسپتال کیلئے فنڈ ریزنگ ہوتی، میں اپنا رول ادا کرتا ،پاکستان رنرز کا 1995میں آغاز ہوا تو عمران خان کے مزید قریب ہونے کا اتفاق ہوا۔عمران خان کرپٹ نہیں تھا ،بے ایمان نہ تھا ،سفارشی نہ تھا لیکن وقت کے ساتھ اس میں سب سے بڑی چیز جو شامل ہوئی اُسے ”تکبر” کہتے ہیں ،عمران خان جب پاکستان کا وزیر اعظم بنا تو اس میںشدید تکبر تھا اس کی زبان میں حقارت تھی اس کی چال تکبرانہ چال تھی اور میں اکثر سوچتا تھا کہ اگر عمران خان اپنی زبان اور تکبرانہ چال میں انکساری پیدا کر لے تو اسے اگلے 10سالوں تک کوئی اسں جگہ سے نہیں ہٹا سکتا لیکن سوچا بھی نہیںتھا کہ عوام کو سب سے مقبول رہنما جس کے جلوس میں لاکھوں لوگ شامل ہوتے تھے اللہ تعالیٰ چند لمحوں میں اسے ہیرو سے زیرو بنا دے گا اورپھر اس کے چاروں اطراف میںاس کے قریبی ساتھی ایک ایک کرکے منہ موڑ لینگے ۔آج عمران کی گرفتار پرجس طرح عوام کی جانب سے رد عمل ملا اس سے بڑی اور کیا مثال ہو گی کہ ”اللہ تعالی جب چاہے عزت دے ،جب چاہے عزت واپس لے لے ” کل تک ہم نواز شریف پر ہنستے تھا کہ کس معمولی جرم میں فوج نے اسے وزیر اعظم کی کرسی سے نکال دیا اور اسلام آباد اور لاہور تک کے جی ٹی روڈ کے سفر میں پکار تا کہ مجھے کیوں نکالا اور اسی طرح آج عمران خان کو ایک معمولی کیس ”توشہ خانہ ” کے کیس میں سزا سنا دی کہ عقل حیران ہے اور عام شہری سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا عقل حیران ہے کہ کیا فوجی حکومت کو نہیںمعلوم کہ اس بے ڈھنگی سزا پرعوام کیا سوچنے پرمجبور ہیں ۔پاکستان آج لا قانونیت والا ملک بن چکا ہے جس پرنا صرف ہر پاکستانی بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے دوسر ی جانب ہمیں اللہ تعالیٰ کے بنائے قانون پر سنجیدگی سے سوچنا ہے کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے بنائے قانون پررہ کر ہی اپنی زندگی گزاریں تب ہی دنیا میں اور آخری میں مکمل کا میابی مل سکتی ہے، اس کیلئے تمام حکمرانوں کو اپنے اختلافات ایک جانب رکھ کر پاکستان کی بقاء کا سوچنا ہوگا۔