ٹورنٹو (پاکستان نیوز) کینیڈا کے ایک سکول کے احاطے سے 215 بچوں کی باقیات برآمد ہوئیں۔ کینیڈا کے ایک بند سکول کے احاطہ میں اجتماعی قبر سے 215بچوں کی باقیات برآمد ہوئیں جن میں کئی بچوں کی عمریں 3سال کے قریب ہیں۔ باقیات ملنے کا اعلان کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے سوشل میڈیا پر کیا، انہوں نے کہا یہ ہمارے ملک کاسیاہ ترین اور شرمناک دن ہے ، بچوں کی باقیات روایتی تعلیم کے ایک بورڈنگ سکول سے برآمد ہوئیں، برٹش کولمبیا میں قائم اس سکول کو 1978میں بند کر دیا گیا تھا، بچوں کی اموات کب اور کیسے ہوئیں اسکی تحقیقات کی جائیں گی۔ اپنے عروج کے زمانے میں اس سکول میں 500 سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم تھے ، یہ سکول مقامی افراد کو ہم آہنگ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ بچے برٹش کولمبیا کے کیملوپس انڈین رہائشی سکول کے طالب علم تھے۔ فرسٹ نیشن میوزیم کے ماہرین اموات کی وجوہات اور اس کے اوقات کا اندازہ لگانے کے لیے کام کر رہی ہے۔کیملوپس میں اس برادری کی سربراہ روزانے کیسیمیر نے کہا ابتدائی کھوج میں ایسے ناقابل تصور نقصان کا پتا چلا ہے جسے سکول انتظامیہ نے کبھی دستاویز میں درج نہیں کیا تھا۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران کینیڈا کے سکول حکومت اور مذہبی حکام کے ذریعہ چلائے جانے والے بورڈنگ سکول ہوتے تھے جن کا مقصد مقامی نوجوانوں کو زبردستی ہم آہنگ کرنا تھا۔وفاقی حکومت نے سنہ 1969 میں اس سکول کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور اسے سنہ 1978 میں اس کے بند ہونے تک مقامی طلبا کے اقامتی درسگاہ کے طور پر چلایا جاتا تھا۔ مز کیسیمیر نے کہا ہم نے اس بات کی تصدیق کے لیے ایک راستہ تلاش کیا ہے کہ ان گمشدہ بچوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ گہرے احترام اور محبت کے ساتھ ہم ٹکیملوپس ٹی سکویپیمک کو ان کی حتمی آرامگاہ قرار دیں۔ اس قبیلے کا کہنا ہے کہ وہ ان گھروں اور برادریوں تک پہنچے جن کے بچے سکول جاتے تھے۔ انھیں جون کے وسط تک ابتدائی نتائج برآمد ہونے کی امید ہے۔ مسٹر ٹروڈو نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ کیملوپس بورڈنگ سکول میں پائے گئے باقیات کی خبر نے میرے دل کے ٹکڑے کر دئیے۔ کینیڈا کے دیسی امور کے وزیر کیرولن بینیٹ نے کہا حکومت ان گمشدہ جانوں کی یادگار قائم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ فرسٹ نیشن ہیلتھ اتھارٹی (ایف این ایچ اے ) کے سی ای او رچرڈ جوک نے ایک بیان میں کہا یہ صورتحال بدقسمتی سے تعجب کی بات نہیں ہے۔سنہ 1863 سے 1998 تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مقامی بچوں کو ان کے اہل خانہ سے لے کر ان سکولوں میں رکھا گیا تھا۔ان بچوں کو اکثر اپنی زبان بولنے یا اپنی ثقافت پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ان میں سے بہت سوں کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی کی جاتی تھی۔ 2008 میں اس نظام کے اثرات کو جاننے کیلئے قائم کمیشن نے پایا کہ مقامی بچوں کی بڑی تعداد کبھی بھی اپنے گھروں اور اپنی برادریوں میں واپس نہیں آئی۔ 2015 میں جاری کی گئی تاریخی ”ٹرتھ اینڈ ریکنسلیشن رپورٹ” میں کہا گیا کہ یہ پالیسی ‘ثقافتی نسل کشی’ کے مترادف تھی، 2008 میں کینیڈا کی حکومت نے اس نظام کیلئے باضابطہ معافی مانگی تھی۔ مسنگ چلڈرن پروجیکٹ کے تحت سکولوں میں رہتے ہوئے فوت ہونے والے بچوں کی اموات اور تدفین کے مقامات کو دستاویزی شکل دی جا رہی ہے ، اب تک بورڈنگ سکولوں میں مرنے والے 4 ہزار ایک سو سے زیادہ بچوں کی شناخت کی جا چکی۔