IMFکا مزید قرض سے انکار،پاکستان دیوالیہ

0
4

اسلام آباد (پاکستان نیوز) آئی ایم ایف کی جانب سے مزید قرض دینے سے انکار کے بعد پاکستانی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے جبکہ حکومت کو ابھی سعودی عرب، چین سے حاصل کردہ قرض بھی واپس کرنا ہے جس کی تاریخ بڑھانے کیلئے وزیراعظم منتیں ترلے کر رہے ہیں ، حکومتی ٹیم سے الگ ہونے والے ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے، معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور قرض کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے ، معیشت ڈوب رہی ہے لیکن اسلام آباد جاؤ تو لگتا ہے کہ سب نارمل ہے۔ سینئر ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ملکی معیشت کا پردہ فاش کرتے ہوئے حکومت شاہانہ اخراجات پر سوال اٹھا دیئے،قیصر بنگالی نے کہا کہ حکومت اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں، ملک دیوالیہ اور معیشت ڈوب رہی ہے ،معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور قرض کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے ، تاہم اب آئی ایم ایف اور دیگر دوست ممالک بھی مزید قرضے دینے سے گریزاں ہیں اور نجکاری کا عمل بھی تعطل کا شکار ہے، کیونکہ کوئی بھی سرکاری اداروں کے لیے بولی نہیں دے رہا۔انہوں نے کہا وزیراعظم کی تشکیل کردہ ہائی پاورڈ کمیٹی سے استعفیٰ دینے پر کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں مجھ سے پہلے حفیظ پاشا اور ڈاکٹر عشرت حسین کی حکومتی اخراجات کم کرنے کی کمیٹی کی سفارشات پر بھی عمل نہیں ہوا اب ہماری سفارشات بھی نہیں سنی جارہی تھیں کہا جاتا تھا کہ آپ کی بات نوٹ کرلی ہے ،کمیٹی میں شامل چند وفاقی وزرائ اور ایم این ایزنہیں چاہتے تھے کہ وزیر اعظم ہماری سفارشات کو سنیں یا عمل کریں۔قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ 70 محکمے بند کرنے کی سفارش پر حکومت نے صرف ایک ادارہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ،تنظیم نو کی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی میں پہلے ٹیکنیکل لوگ تھے پھر کمیٹی میں دو وفاقی وزیر اور سیاسی لوگوں کو شامل کردیا گیا،تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ وفاقی وزراء ا ور سیاسی لوگوں کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ سینئر ماہر معاشیات کا کہنا تھاکہ ادارے بند کرنے سے 33 ارب روپے کے آپریشنل اخرجات بچائے جاسکتے تھے، اخراجات کم کرنے کی حکومت کی نیت ہی نہیں ہے، سیاسی لوگوں اور وزراء اور اداروں کے سربراہان کے ذاتی مفادات ہیں ، کفایت شعاری کمیٹی (وفاقی حکومت کی تنظیم نو کے لیے ہائی پاورڈ کمیٹی) کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ ہیں ،کمیٹی میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایم این ایز بھی ہیں،کمیٹی نے جائزہ لیے گئے 70 سرکاری اداروں میں سے صرف ایک کو بند کرنے کی سفارش کی ہے جبکہ انہوں نے 17 تجارتی اداروں کی نجکاری اور 52 سرکاری اداروں کو برقرار رکھنے کی تجویز دی تھی۔قیصر بنگالی نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح مالیاتی خسارے کو روکنا ہونا چاہیے جو معیشت اور ملک کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کمیٹی کا مرکز تقریباً تمام سرکاری اداروں کو برقرار رکھنے پر منتقل ہو گیا ہے لیکن انہیں مزید موثر بنانا ہے۔انہوں نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ چھوٹے ملازمین ( بی پی ایس 1 سے 16 تک) کی آسامیوں کو ختم کرنے اور یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی نجکاری کی کمیٹی کی سفارش کو بھی چیلنج کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ “تنظیم نو” کا پورا بوجھ معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے پر ڈالا جا رہا ہے اور اس میں کسی بھی بڑی پوسٹ والے سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، ڈائریکٹر جنرل وغیرہ کی آسامیوں کے خاتمے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ کمیٹی کو پیش کی گئی اپنی تفصیلی رپورٹ میں انہوں نے 17 ڈویڑنوں اور تقریباً 50 سرکاری اداروں کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی جس سے بی پی ایس 20 سے 22 کی ایک بڑی تعداد میں کمی واقع ہوتی۔ان کا کہنا تھا کہ بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں ط جو کہ ریورس ایف ڈی آئی کا عمل جاری ہے۔ دوسری جانب، انہوں نے کہا کہ گھریلو بجٹ بھی تباہ ہو چکے ہیں۔انہوں نے پنجاب میں غربت کی وجہ سے ایک ہی دن میں دو خاندانوں کی خودکشی کی مثالوں کا حوالہ دیا۔انہوں نے ٹیکس وصولی کی انتہائی جارحانہ کوششوں بلیک میلنگ کی حد تک طریقوں کا استعمال پر بھی تنقید کی اور کہا کہ معیشت ساختی طور پر کمزور ہے اور مزید آمدنی پیدا نہیں کر سکتی۔ انہوں نے دہرایا کہ بڑے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کا جواب حکومت کے موجودہ اخراجات میں کمی کرنا ہے، جس میں غیر جنگی دفاعی اخراجات بھی شامل ہیں۔مالی سال 2023ـ24 کے نظرثانی شدہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ کل مجموعی ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات 12 ٹریلین روپے اور کل موجودہ اخراجات 14 ٹریلین روپے تھے، جس سے 2 ٹریلین روپے کا فرق رہ جاتا ہے جو کہ اخراجات میں کمی کا ہدف ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی آخری تاریخ آنے پر وہ حکومتی سطح پر بڑھتے ہوئے غیر ضروری اخراجات کو روکنے کے لیے سنجیدہ نقطہ نظر نہ اپنانے پر احتجاجًا ایک دن تاخیر سے اپنا ریٹرن جمع کرائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here