یہ کالم ہم کمالا ہیرس کی اچھائی یا برائی میں نہیں لکھ رہے اس لئے کہ پچھلے ساڑھے تین سال میں کمالا ہیرس نے امریکن کے لئے اپنی کوئی پہچان نہیں بنائی۔ کہ ووٹ دیتے وقت سوچا جائے کہ ووٹ کمالا کو دیں۔ کمالاہیرس میں ایسی کوئی اچھی بات نہیں ملی کہ اسکا بیان کریں سوائے اس کے کہ وہ بے بات بڑا سامنہ کھول کر ہنستی ہے اور آپ سوچیں کہ یہ کس لئے ہنس رہی ہے ایک پلان(غفلت انگیز مجرمانہ) کے تحت بائیڈین کو ہٹا کر ڈیموکریٹ نے فیصلہ کیا کہ کمالہ کو لایا جائے اور امریکہ کی تاریخ بدلی جائے کہ پہلی خاتون صدر کا اعزاز دیا جائے۔ اور سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اخبارات میڈیا اور سوشل میڈیا ان میں وہ خوبیاں بتانے لگا جس کا ہمیں علم ہی نہیں ایسا لگا کہ امریکہ الف لیلیٰ کی داستانوں میں سے ایک داستان دہرا رہا ہے وہ ایسے کہ کسی ملک کا راجہ مر گیا تو مشیروں اور ملک کے کرتا دھرتائوں نے سوچا۔ اگلی صبح شہر کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر انتظار کریں اور جو پہلا شخص شہر میں داخل ہو اُسے کندھے پر بٹھا کر پھول چڑھائیں اور اعلان کریں تم ہی بادشاہ ہو۔ یہاں مشیروں اور اثررسوخ والے عوام کی جگہ میڈیا اور اخبارات میں دوسرے دن ہی کمالا ہیرس کی ریٹنگ ڈونلڈ ٹرمپ سے چار پانچ پوانٹ آگے تھی۔ انٹرویو آنا شروع ہوگئے خاص کر ٹائم میگزین نے اندر کے صفحات میں دونوں صفحات پر کمالاہیرس کی فوٹو دکھائی اور ایک جّلی لائن ڈالی۔
TNE-HARRIS PLAN اسے پڑھ کر ہنسی آئی کہ کمالاہیرس کا بھی کوئی پلان ہے جب کہ انکا اپن کوئی پلان نہیں تھا اور نہ ہے ملاحظہ ہو ایک صحافی کے انٹرویو کے بعد پچھلے ہفتہ فاکس نیوز کے بریٹ ہیئر(BRETT HAIER) نے کمالا کا انٹرویو کیا تو پتہ چلا کمالاہیرس دماغ سے خالی ہے۔ انکا کہنا تھا۔ انٹرویو کے درمیان ”او میرے خدا کمالہ کیIQتو ایک گلہری کے برابر ہے” انہوں نے مزید کہا ”میں مذاق نہیں کر رہا۔ کمالہ ایک بیوقوف عورت ہے جس کا میں نے انٹرویو کیا” ایک اور بیان ہے ان کا اس کا اصل چہرہ سامنے آگیا۔ کہ وہ کسی بھی طرح صدارت کے لئے موزوں نہیں اور نہ ہی وہ ملک کو چلا سکتی ہے۔ اس پر ایک مشہور ٹاک شو کے میزبان جو کئی چینل سے نکالے جانے کے بعدHBOپر شو کرتے ہیں۔ کمالا کی حمایت میں بہت کچھ کہہ گئے۔ یہ میڈیا والے امریکن کو بیوقوف سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے ہر چند کہ90فیصدی پو ل جو کہ گھر کے ہیں میں کمالہ صدر بننے جارہی ہے لیکن ایسا ناممکن ہے۔ ادھر اوبامہ صاحب بھی اچانک بیدار ہوچکے ہیں اور وہ اوپر اونفری کے ساتھ مل کر کمالہ کے گن گا رہے ہیں۔ بے سوچ سمجھے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوگا جو وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر عوام ایک دفعہ بیوقوف بن سکتے ہیں تو دوسری بار نہیں بنیں گے اگر ہم جائزہ لیں تو اس نتیجہ میں پہنچتے ہیں کہ ہر چند یہ مقابلہ سخت ہے لیکن ٹرمپ دوبارہ صدر بنیں گے اور وہ اب بے وقوفوں کی بات میں نہیں آنے والے۔
یہاں یہ کہتے چلیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی کوئی چھومنتر نہیں ہیں لیکن کمالہ سے کہیں بہتر ہیں اور دنیا کے ہر لیڈر کو جانتے ہیں انہیں اپنی بات منوانا آتی ہے۔سائوتھ کوریا ہو یا روس وہ دنیا کو جنگ سے دور رکھتے ہیں اس کی مثال ہم یہ دینگے کہ سمجھ لیں امریکہ کے ہر شعبہ یا دارے پر مافیا چھائی ہوئی ہے اور ٹرمپ جانتے ہیں کہ اس کا توڑ کیا ہے اسی لئے ٹرمپ کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ میڈیا کو وہ گھاس نہیں ڈالتے یہ کام ایک بڑا ہی کروک کرسکتا ہے اگر میڈیا اور کمالہ ڈونلڈ ٹرمپ کوCROOKکہتے ہیں یہ انکی مجبوری ہے کہ ایک موذی نتن یاہو کا ساتھ دیں کہ ساری کارپوریشن کے ہیڈ یہ ہی موذی ہیں جنہوں نے مہنگائی بڑھا کر سارا نظام درہم برہم کر رکھا ہے۔
یہ ملک اب مزید کرپشن برداشت نہیں کرسکتا اور مفت خوروں کو کھلاتے کھلانے اور انکا علاج فراہم کر کرکے قلاش ہے۔ ہیلتھ کیئر نظام بری طرح بنک کرپٹ ہے ان لوگوں کو نہیں معلوم کہ انہیں بے کار بیٹھنے پر چیک کہاں سے آتا ہے۔ ان کے پاس کبھی روزگار نہیں تھا لیکن وہ فوڈ اسٹمپ کے حقدار ہیں ایک مذاق ہے۔
بات ہو رہی تھی کون بنے گا صدر نیویارک ٹائمز اورSIENA POLLکے مطابق30فیصدی امریکن فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ وہ کمالہ ہیرس کے متعلق مزید جاننا چاہتے ہیں جنہیں اچانک صدارت کے لئے نامزد کردیا گیا ہے یہ ایک سازش لگتی ہے۔ کارنیگی میلان بڑا تعلیمی ادارہ ہے جہاں کمالہ ہیرس نے خطاب کیا تھا اور اپنا معیشت کا پلان بتایا تھا کشا مضحکہ خیز پلان ہے کہ انکا کہنا تھا کہ وہ ٹیکس میں50فیصدی کٹوتی کرینگی نئے بزنس پر اور چھ ہزار ہر بچے کے لئے ٹیکس میں کریڈٹ دیا جائیگا۔ اور پانچ لاکھ ملازمتوں کے لئے وہ تعلیمی ڈگری کی مانگ ختم کردینگی۔ جو فیڈرل ملازمتیں ہیں اور نیا گھر خریدنے پر25ہزار ڈالر بھی دینگی۔ اُن کی یہ باتیں ایک شیخ چلی سے کم نہیں وہ اس پلان سے چل رہی ہیں کہ جتنا جھوٹ بول سکتے ہو بولو۔ اپنے مخالف پر جتنی الزام تراشی کرسکتے ہو تو کرو۔ کوئی پکڑ نہیں۔
ایسی سیاست، صرف تھرڈ ورلڈ ممالک میں ہی کھیلی جاتی ہے یہ امریکہ ہے اور ہر امریکی ووٹ دیتے وقت سوچے گا ایسے کو ووٹ دیں کہ بیرونی ممالک یہ نہیں کہیں کہ امریکن جاہل قوم ہے وہ تین ملین نئے مکان بھی بنوائینگی۔ شاید وہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہیں عوام میں کمالہ ہیرس کی مقبولیت ٹرمپ کے مقابلے میں 20فیصد بھی نہیں اس کا اندازہ ٹرمپ کی حالیہ الیکشن کمپین کے تحت، میکلڈانلڈ میں کھڑے ہو کر ایک عام کیشئر کی طرح کام کرتے ہوئے کار میں بیٹھے ہوا امریکنز کو آرڈر فراہم کرنا تھا اور اس موقعہ پر میکڈانلڈ کے سامنے میلوں تک عوام کا ہجوم تھا جو انہیں دیکھنے کے لئے کھڑا تھا۔ برائن ڈیس(معاشی پالیسی کے مشیر) کہنا ہے کہ کمالہ ہیرس نظریہ کے تحت ہیں نہ کہ سوچ کے تحت جو اُن کے پاس نہیں۔
ان حالات میں عوام جانتے ہیں کہ مہنگائی کا طوفان، اشیاء کی قیمتیں اور ملک کو آگے بڑھانا کمالہ کے بس کی بات نہیں۔ اس لئے کے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں وہ خود کو بے معنی ثابت کرچکی ہیں وہ کسی بھی طرح اس کرسی کے قابل نہیں۔ صرف کیلی فورنیا، نیویارک، ٹری اسٹیٹ کے الیکٹوریل ووٹ لے سکتی ہیں۔ دونوں امیدواروں میں سے کوئی بھی270ووٹ لے کر صدر بنے گا اس الیکشن کا فیصلہ جو5نومبر کو ہیں ایسے ہی ہوگا۔ عوام یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کمالہ ہیرس نے واٹس پریذی ڈنٹ کے لئے جیسے چنا ہے وہ کوئی اثر نہیں چھوڑے گا اسکے مقابلے میں ہر چند ٹرمپ کو لوگ نہ پسند کریں لیکن انکا واٹس پریذی ڈینٹ عوام کو پسند ہوگا۔ پڑھنے والوں کو آگاہ کرتے چلیں کہ ہر چار سال بعد دو پارٹیوں کے امیدواروں کے علاوہ تیسری پارٹی بھی ہے جو گرین پارٹی کہلاتی ہے بہت سے پڑھے لکھے لوگ دو پارٹیوں کا تسلط توڑنا چاہتے ہیں اس کے لئے وقت درکار ہے۔ اس پارٹی کے پیسے نہیں ہیں کہ وہ میڈیا کو خرید سکیں فیس بک پر اس گرین پارٹی کا پیغام ملا۔ دونوں پارٹیاں ایک ہی مشن پر ہیں کہ کون اسرائیل کے لئے بہت کریگا بجائے اس کے کہ امریکہ کے لئے کیا جائے۔ یہ بھی لکھا ہے کہAIPACکی گرفت سے ملک کو آزاد کرائیں جو آپ کے بچوں کو باہر کی جنگوں میں گھیسٹ رہے ہیں۔” بات درست ہے لیکن اس کے لئے 20سال درکار ہیں یا کبھی ایسا نہ ہو یہ بھی ممکن ہے ہمارا ایسا کہنا ہے کہ گرین پارٹی درست کہہ رہی ہے لیکن اس دفعہ اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کے کرنا ہے۔
٭٭٭٭٭