لاہور میں حوا کی
بیٹی ہوس کا شکار
لاہور بھر کے تعلیمی اداروں کے باہر چھٹی کے دوران جہاں لڑکیوں کا رش رہتا ہے وہیں اوباشوں کی بڑی تعداد بھی واضح نظر آتی ہے جن کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا، گاڑیوں ، بائیکس پر ایسے منچلوں کی بہتات ہوتی ہے جوکہ دل میں ہوس لیے للچائی نظروں سے لڑکیوں کو تاڑ رہے ہوتے ہیںاور جب بات حد سے بڑھتی ہے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو لاہور کے معروف کالج میں دیکھنے میں آیا ،سوشل میڈیا پر اس حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں کچھ لوگ اس واقعہ کو حقیقت اور کچھ اس کو مبالغہ آرائی قرار دے رہے ہیں ، جس کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے ۔اسی طرح سوشل میڈیا پر لڑکی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کا بھی سراغ لگایا جائے گا، ایس ایس پی محمد نوید نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کا پہلا اجلاس آج ہی طلب کرلیا۔ لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے معاملے پر راولپنڈی میں احتجاج کرنے والے 385 مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ پولیس نے منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا تھا۔16 اکتوبر کو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کو پروپیگنڈے قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بچی زیادتی نہیں، گھٹیا سازش کا شکار بنی، بار بار کی احتجاج کی کال ناکام ہونے کیبعد انتہائی گھٹیا اور خطرناک منصوبہ بنایاگیا، فتنہ فساد کی جڑ خیبرپختونخوا حکومت ہے۔14 اکتوبر کو لاہور کے نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی جس کے طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تھے اور مذکورہ کالج میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا تھا، اس دوران پولیس سے جھڑپوں میں 27 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔پولیس نے سراپا احتجاج طلبہ کی نشاندہی پر نجی کالج کے ایک سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا تھا، تاہم مبینہ طور پر متاثرہ طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے درخواست جمع نہ کرانے کے باعث تاحال واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکی ہے۔پیر کی شپ اے ایس پی شہر بانو نقوی نے متاثرہ طالبہ کے مبینہ والد اور چچا جو ماسک سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھے، کے ساتھ ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا۔اے ایس پی کے ساتھ کھڑے ایک شخص نے کہا کہ لاہور کے نجی کالج میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں ان کی بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری، جس سے اس کی کمر پر چوٹ آئی ہے اور اسے آئی سی یو لے جایا گیا۔تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیک نیوز پھیلانے کے لیے جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس استعمال کیے گئے، فیک نیوز کے ذریعے معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا، اس واقعے سے فیک نیوز کے ذریعے اشتعال پھیلانا بھی ثابت ہوتا ہے۔رپورٹ میں مزید سفارش کی گئی ہے کہ حکومت کو متاثرہ خاندان کی عزت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔9 صفحات پر مشتمل رپورٹ پر چیف سیکرٹری پنجاب سمیت تمام افسران کے دستخط موجود ہیں، کمیٹی نے 15 اور 16 اکتوبر کو ریکارڈ کیے گئے 16 افراد کے بیانات کو اہم قرار دیا مگر نئی پود کا غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہیں ہو پا رہا۔ اسے پختہ یقین ہے کہ اگر کسی کے ہاتھ میں کوئی ثبوت نہیں تو پھر تو پکا پکا اسے بہت ہی مہارت سے چھپایا جا رہا ہے۔ شک محض نئی پود کی میراث نہیں بلکہ یہ ترکہ اس پود کو ان بڈھوں سے ورثے میں ملا ہے جنھوں نے دنیا کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ سیاہ و سفید کے سوا ہر رنگ دکھائی دے رہا ہے۔بہرحال سب قصور ان بچے بچیوں کا بھی نہیں جو رمز فیلڈ کی طرح عدم وجود کو وجود ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شاید تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر انھیں بے یقینی کے بادلوں تلے اس قدر سماجی و سیاسی گھٹن محسوس ہوتی ہو کہ اندر ابلتے لاوے کو باہر آنے کے لیے کوئی بھی بہانہ غنیمت ہو۔ایسے میں کون سا سچ اور کیا جھوٹ؟ سب گڈمڈ ہے مگر یہ نشہ آور حلیم تیار کرنے والوں کو بھی تو مطلوبہ سکون اور نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے بلکہ وہ تو خود بے یقینی کی دلدل میں اندھا دھند ہاتھ پاؤں چلا کر خود کو اور دھنساتے جا رہے ہیںاگر یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ جس مبینہ ریپ نے پنجاب کے شہروں میں ہنگامہ مچایا وہ محض سوشل میڈیا کی شرارت ہے، تب بھی اس شرارت کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنے بتائے جا رہے ہیں۔
٭٭٭