حقیقی علم!!!

0
14

لفظ علم اس قدر عام اور مشہور ہے آپ کسی عام سے عام اور سادہ سے سادہ شخص سے بھی اس کی بات پوچھیں گے تو وہ شخص بھی اس لفظ سے با خبر نظر آئے گالیکن اگر حقیقت علم پوچھیں گے تو شاید ہزاروں میں کوئی ایک ملے جو علم کی حقیقت سے آگاہ ہو modern education کو ہم روزی کمانے کا طریقہ تو کہہ سکتے ہیں۔معلومات کا خزانہ تو کہہ سکتے ہیںلیکن یہ حقیقی علم نہیںالبتہ کوئی فرائض علوم سیکھنے کے بعد کسی دنیوی علم میں مہارت حاصل کرکے ملک وملت میں خیر بانٹتا ہے تو یہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس لیے کہ ثواب کا دارومدار تو بہر حال نیت پر ہے۔ہم بات کررہے ہیں حقیقی علم کی تو یاد رکھ لیجئے قرآن وسنت میں جہاں کہیں بھی علم کا لفظ آئے گا تو اس سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے اس لیے کہ تمام علوم کا اصل ماخذ قرآن ہی ہے اس لیے علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا۔
قران میں ہو غوطہ ذن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
یہ علم ہی ہے جس کو اللہ کریم نے حضرت انسان کے مشرف کا سبب بتایا۔ایک دن رحمت عالم مسجد نبویۖ میں تشریف لائے آپ نے دو حلقے دیکھے ایک حلقہ ان کا تھا جو اللہ کا ذکر کررہے تھے، اللہ سے دعائیں مانگ رہے تھے ،دوسرا حلقہ ان کا تھا جو علم سیکھ رہے تھے اور سکھا رہے تھے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں خیر پر ہیں مگر جو علم سیکھ اور سکھا رہے ہیں وہ ذکر والوں سے افضل ہیں اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے آج وہ امت جنہوں نے علم و فن کے میدان میں ایک سنہری تاریخ رقم کی ان پر جہالت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
آج ہماری ذہنی غلامی کا عالم یہ ہے کہ ہم نے سارے کا سارا علم انگریزی بولنے کو سمجھ لیا حالانکہ یہ ایک قوم کی زبان کے علاوہ کچھ نہیں چونکہ وہ قوم دنیوی میدان میں معاشی اور سیاسی میدان میں ترقی کرگئے اس لیے یہ ہماری ضرورت بن گئی اگر اسے صرف ضرورت سمجھا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن صورت حال تو بالکل برعکس ہے۔اب آئیے سردست ہمیں کرنا کیا ہے۔ سب سے پہلا کام ہے اپنی اولادوں کو ماہر قراء کی زیر نگرانی قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم دلوائیں۔ اس کی تفہیم و تشریح کا مرحلہ تو بعد کا ہے ہماری آج کی نسل تو اوپر سے دیکھ کر درست قرآن نہیں پڑھ سکتی اس لیے ساتھ میں سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز میں اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جائے۔ اسی طرح بنیادی دینی تعلیم جس میں عقائد و اعمال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ طہارت، نماز، روزہ، زکوٰة، حج و عمرہ، نکاح اور طلاق کے مسائل سکھانا یہ والدین کے ساتھ وارثان منبرومحراب اور ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔ آپ جماعت ووکالت ، سیاست و تجارت ، ڈاکٹریٹ اور انجینئرنگ یعنی کسی بھی میدان میں اپنی خدمات پیش کریں اسلام آپ کو قطعا نہیں روکتا لیکن اگر آپ بنیادی دینی علم سے ت ہوکر دنیوی علم میں PHDبھی کرلیں تو یاد رکھیں آپ نے روزی کمانے کا ہنر سیکھا ہے حقیقی علم سے آپ دور ہیں۔اگر ہم واقع ہی ایک مشکل ہجوم کو ایک زندہ قوم بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں حقیقی علم یعنی قرآن و سنت کا علم سیکھنا ہوگا اور پھر دوسرو کو سکھا نا ہوگا۔ اللہ کریم ہمیں علم نافع کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ ربی ذدنی علما۔ آمین۔ثم آمین۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here