پانچویں قسط
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ذہن میں یہ بات آئی کہ شریعت نے فرائض سے متعلق عورت ومرد کے مابین کوئی امتیاز نہیں رکھا تو پھر عورتوں پر جہاں کیوں نہیں جب کہ قیاس یہ کہتا ہے کہ عورتوں پر بھی جہاد فرض ہونا چاہئے۔ آپ نے سرکار ابد قرار سے عرض کیا: حضور! کیا عورتوں پر جہاں فرض نہیں تو سرکار نے فرمایا نہیں بلکہ عورتوں کے لیے حج ہی جہاد ہے۔ آپ کی جستجوئے علم کا یہ عالم تھا کہ آپ مسائل شرعیہ کی عقدہ کشائی کو مقدم اور بہت ہی اہم سمجھتی تھیں خواہ کیسا ہی موقع رہا ہو مگر آپ سرکار کی بارگاہ میں بلاتامل مسائل پیش کرکے اپنے ذہن و دماغ کو سکون فراہم کرتی تھیں۔
سرکار نے ایلاء کے سلسلے میں ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے قریب نہ جانے کا عہد فرمایا تھا۔ جب مہینہ اختتام کو پہنچا تو سوئے اتفاق کہ وہ مہینہ انتیس دن کا تھا۔ تو سرکار سب سے پہلے حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے فرمایا سرکار! آپ نے تو ایک ماہ تک کے لیے ایلاء فرمایا تھا مگر آج انتیسواں دن ہے سرکار تبسم ریز ہوئے اور فرمایا عائشہ! کیا مہینہ انتیس دن کا نہیں ہوتا۔ حالانکہ فطرت انسانی کا تقاضہ یہ تھا کہ اس انتہائی کیف وانبساط کے زریں موقع پر حضرت عائشہ کو یہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا مگر آپ کی جستجوئے علم کا ذوق نموتھا جو بغیر استفسار کیے سیراب نہیں ہوتا تھا۔
حضورۖ نے تجہد کی نماز سے فراغت حاصل کی اور وتر پڑھے بغیر استراحت فرمانے لگے تو حضرت عائشہ نے بصد عزواحترام عرض کیا سرکار! وتر پڑھے بغیر آپ آرام فرمانے لگے۔ سرور کائنات نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا عائشہ کیا! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی کی آنکھیں سو جاتی ہیں مگر دل جاگتا رہتا ہے، اسی طرح حضورۖ نے کسی موقع سے فرمایا ‘من حوسب عذب،، یعنی جس کا حساب کیا گیا وہ عذاب میں مبتلا ہوا۔ حضرت عائشہ نے فوراً فرمایا یارسول اللہ! آپ تو یہ ارشاد فرما رہے ہیں مگر حق تعالیٰ تو فرماتا ہے، ‘فسوف یحاسب حسابایسیرا” جب حسال آسان ہوگا تو پھر عذاب کا نزول کیسے ہوسکتا ہے۔ سرکار نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ پیشی ہے حساب نہیں۔ ایسے ہی سرکار نے ایک بار فرمایا کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوگا مگر خداوند قدس کی رحمت سے۔ سیدہ عائشہ نے عرض کیا حضور! کیا آپ بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی خداوند قدوس کی رحمت ہی سے جنت میں داخل ہوں گا مگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت میں چھپا لیا ہے۔
٭٭٭