نیویارک /واشنگٹن ڈی سی (پاکستان نیوز) امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت کو طلبا کی جانب سے محاذ آرائی کا چیلنج درپیش ہے، امریکہ میں مختلف ممالک سے پڑھنے کے لیے آئے لاکھوں طلبا فلسطین کی حمایت میں اکٹھے ہوگئے ہیں ، امریکہ بھر کی مختلف یونیورسٹیوں ، کالجز ، تعلیمی اداروں میں طلبا شدید احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں جبکہ ریلیاں اورمظاہرے بھی جاری ہیں جس میں اب تک سینکڑوں طلبا کو حراست میں لیا گیا ہے ، اسرائیلی حکومت اکتوبر 2023 سے اب تک 34,500 فلسطینیوں کو ہلاک کر چکی ہے، اس کے جواب میں طلباء نے پرامن سول نافرمانی کی ایک طویل امریکی روایت میں حصہ لینے کے لیے اپنے یونیورسٹی کیمپس کا رخ کیا ہے۔ ملک بھر میں طلباء خاص طور پر فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں نے غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش سنگین حالات کے جواب میں واضح، جائز اور مقبول مطالبات کا اہتمام کیا۔ فلسطین ، اسرائیل جنگ کے بعد سے مسلمانوں کی بڑی تعداد نفرت آمیز حملوں کا بھی شکار ہو رہی ہے ، کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن کے مطابق کیئر کو 2023میں اس حوالے سے 921 شکایات موصول ہوئیں، جن میں غنڈہ گردی اور تعلیمی امتیاز شامل ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 219 فیصد زائد ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق 2024 میں، اعلیٰ تعلیم یا تجارتی،پیشہ ورانہ پروگرام میں 84 فیصد مسلم طلباء نے پچھلے سال مذہبی امتیاز کا سامنا کیا۔ مسلم طلباء کی ایک بڑی اکثریت 68 فیصد نے امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کی اطلاع دی۔دریں اثنا ء امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والے 33 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ جس کے بعد غزہ جنگ کے خلاف امریکی جامعات میں احتجاج کے دوران گرفتاریوں کی تعداد 2600 سے تجاوز کر گئی ہے۔امریکی دارالحکومت کی میٹروپولیٹن پولیس نے دعویٰ کیا کہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے گرفتار کیے گئے 33 افراد غیر قانونی طور پر کیمپس میں داخل ہوئے اور انہوں نے پولیس افسر پر حملہ کیا۔پولیس نے یونیورسٹی کی حدود میں خیمے لگا کر بیٹھنے والے طلبہ کو احتجاجی مقام سے ہٹانے کے لیے ان پر مرچی کا اسپرے بھی کیا جب کہ پولیس کا موقف ہے کہ اس نے مظاہرین کو منتشر کیا ہے کیونکہ احتجاج کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔یونیورسٹی کے عہدیداروں نے طلبہ کو متنبہ کیا ہے کہ انہیں جامعہ کی حدود میں احتجاج کرنے پر معطل کیا جا سکتا ہے۔ایک بیان میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی نے کہا کہ یونیورسٹی طلبہ کے آزادی اظہار کے حق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ البتہ احتجاجی کیمپ غیر قانونی سرگرمی میں تبدیل ہو گیا تھا جس میں شرکائ نے یونیورسٹی کی متعدد پالیسیوں اور شہر کے ضوابط کی براہِ راست خلاف ورزی کی تھی۔درجنوں مظاہرین نے منگل کی شب جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی صدر ایلن گرانبرگ کے گھر کی طرف مارچ بھی کیا تھا۔خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق امریکہ بھر میں مختلف جامعات میں فلسطینیوں کے حامی مظاہروں میں اب تک 2,600 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔فلسطینیوں کے حامی طلبہ سترہ اپریل سے اب تک امریکہ کے کم از کم 50 کیمپسز میں جمع ہوئے ہیں جو یہ غزہ جنگ کے خلاف اور رفح میں اسرائیل کے کسی بھی متوقع آپریشن کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔یونیورسٹی صدر ہالا عامر نے کہا کہ آپ تشدد کو بھڑکاتے اور طلبہ کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ یہ صرف مزید تشدد کا باعث بنے گا۔ آپ کو اپنے طلبہ سے بات کرنا ہوگی۔امریکہ کی مختلف جامعات میں احتجاج غزہ میں جاری جنگ کے ساتویں مہینے میں ہو رہا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے میں تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک اور تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔فریقین کے درمیان غزہ جنگ بندی کے لیے ثالثوں کی مدد سے مذاکراتی عمل جاری ہے۔واضح رہے کہ رفح غزہ کا جنوبی شہر ہے جو مصر کی سرحد سے متصل ہے۔ جنگ کے باعث 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی رفح میں ہی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ فلسطینی سرزمین میں انسانی امداد پہنچانے کی ایک راہداری بھی ہے۔اسرائیل نے منگل کے روز غزہ کی حدود میں رفح کراسنگ قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل کے اس اقدام پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی تھی۔