بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بے شک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
تفصیل تو پتہ نہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا لیکن پچھلے چند سالوں سے ایک فائز عیسیٰ نامی شخص، پاکستان کی عدالتِ عظمی کا ایک متنازعہ کردار بنا رہا۔پاکستان کی عدلیہ کی شہرت پہلے بھی کوئی زیادہ بہتر نہیں تھی لیکن اس شخص کی وجہ سے تو مرے کو مارے شاہ مدار والا کام ہوگیا۔ کرپشن کی وجہ سے، ایک مرتبہ ان کو عدالتِ عظمیٰ سے نکال باہر کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کی گئی مگر ایک مزید لمحے کی غلطی کی وجہ سے یہ حضرت بچ نکلے اور پھر تیرہ ماہ اور گیارہ دن کیلئے چیف بھی بن گئے۔ ان کی نرگسیت اور بغض و عناد رکھنے والی طبیعت کی وجہ سے نہ صرف پورے ملک میں بنیادی انسانی حقوق پامال ہوئے بلکہ کے آئین کا بھی تیا پانچا ہو گیا۔ اجتماعیت میں اس طرح کے کسی گندے انڈے کا چیف بن جانا کوئی ایسی انہونی بات بھی نہیں۔ پاکستان کے علاوہ، یہاں امریکہ میں بھی، چھوٹی سی مسجد کمیٹی سے لے کر بڑی سے بڑی نیشنل آرگنائزیشن کے چیف بلکہ صدرِ امریکہ کی پاورفل پوزیشن پر بھی، مسٹر عیسی جیسے لوگ، فائز یا قابض ہو جاتے ہیں۔ اس ساری تباہی میں لمحے کی غلطی ہی ایسا سبب بنتی ہے کہ صدیوں تک کئی نسلیں، اس کی سزا بھگتتی رہتی ہیں۔ مظفر رزمی صاحب نے کیا خوب کہا تھا کہ!
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
ان نحوست زدہ شخصیات کو سوائے اپنے، کسی اور کے مفاد کا رتی بھر احساس نہیں ہوتا۔ خود پسندی جیسی بیماری کا شکار یہ لوگ، فوٹو آپس کیلئے اپنے گرد صرف خوش آمدی لوگ ہی جمع کئے رکھتے ہیں۔ اپنی اگلی نسل کو کسی میرٹ کے بغیر ہی آگے بڑھانے کے چکر میں مضحکہ خیز حماقتیں کرتے رہتے ہیں۔ عام لوگ توان سے تنگ رہتے ہی ہیں مگر معاشرے کے اہل الرائے حضرات جو حکمت کے تقاضوں کے مدِ نظر، ابتدا میں ان کے خلاف کچھ نہیں بولتے لیکن بالآخر تنگ آمد، بجنگ آمد کے اصول کے تحت، یومِ نجات منانے کا بیچینی سے انتظار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ فائز عیسی ٰجیسے لوگ، حبِ علی سے کہیں زیادہ بغضِ معاویہ کی وجہ سے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ ان کا سارا وقت ملک و قوم اور تحریک و تنظیم کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر، اپنی انا کی تسکین میں خرچ ہوتا رہتا ہے۔ ان کی غلیظ حرکتیں، اپنے محسنوں کو سب سے پہلے نشانے پر رکھتی ہیں۔ دوہری شخصیت اور دوہرے معیار، انکی سب سے بڑی کمزوری بن جاتے ہے۔ سازشی ذہنیت، ان کو کسی طرح سے بھی آرام و سکون میسر نہیں ہونے دیتی۔ انکی راتوں کی نیندیں اڑی رہتی ہیں۔ ماتحت لوگوں کو دھونس و دھمکیاں دے کر، اپنی جھوٹی تسکین حاصل کرنے کا شوق بھی پورا کرتے رہتے ہیں۔ دوہری شخصیت اور دوہرے معیار کے حامل لوگ ویسے تو معاشرے میں بہت سے پائے جاتے ہیں، جیسے راحت اندوری نے اپنے ایک خوبصورت شعر میں فرمایا تھا کہ!
دلوں میں آگ ، لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پر دہری نقاب کرتے ہیں
البتہ عدالتِ عظمی کے کسی منصف یا کسی تنظیم کے صدر کے ناپاک چہرے پر ایک دوہری نقاب، اجتماعیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔ اکثر ایسے لوگ عہدہ ملنے سے پہلے اپنے خبثِ باطن کو اس قدر چھپانے کے قابل ہوتے ہیں کہ انکی تاجپوشی پر بہت سے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے تھکتے نہیں لیکن جب ان کا اصلی چہرہ سب کے سامنے آتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور لوگ قتیل شفائی کے اس شعر پر غور کرنا شروع کر چکے ہوتے ہیں۔
احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں
پاکستان کا مجرم چیف تو عدلیہ کو تباہ و برباد کرکے بیرونِ ملک فرار ہو چکا ہے۔ بقیہ گندے انڈوں کے ٹوٹنے کا شدت سے انتظار ہے۔ اس طرح کے بد کرداروں کا انجام تو کبھی اچھا نہیں ہوتا لیکن نقصان کی تلافی ہوتے ہوتے صدیاں گزر جاتی ہیں۔ اس طرح کے حادثات سے دوچار ہونے کے بعد، اکثر اجتماعیت مایوسیوں کا شکار ہونے لگتی ہے۔ ایسے مواقع پر احمد ندیم قاسمی کے یہ دعائیہ اشعار بے اختیار یاد آنے لگتے ہیں۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھِلے، وہ کھِلا رہے صدیوں
یہاں خِزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو
دعا کے ساتھ ساتھ، منو بھائی (مرحوم) کے پنجابی میں کہے یہ اشعار بھی خاصے معنی خیز ہیں۔
جو توں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے
سکھ لئی دکھ وی جھلنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندا اے
٭٭٭