چوتھی قسط
چنانچہ حضرت قاسم جواجلہ تابعین میں سے ہیں، فرماتے ہیں: کانت عائشة قد استقلت بالفتوی خلافة ابی بکروعمروعثمان وھلم جراالی ان مانت یرحمھا اللہ تعالیٰ۔ یعنی حضرت عائشہ حضرب ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ادوار خلافت سے تادم مستقلاً منصب افتا پر فائز رہیں۔ اللہ ان پر رحمتوں کی بارش فرمائے۔ اگر طوالت کا خوف دامن گیر نہ رہا تو انشاء اللہ چند صفحوں کے بعد اس سلسلے میں کچھ تفصیل پیش کی جائے گی۔ علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اپنی مایئہ ناز تصنیف ”عین الاصابة” میں باب فضل عائشہ کے ضمن میں رقم طراز ہیں، عن عروة ”قال مارایت الصحابة یسالْون عائشة عن الفرائض” یعنی بخدا میں نے صحابہ کو حضرت عائشہ سے مسائل فرائض پوچھتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت عطا فرماتے ہیں: ”کانت عائشة افقہ الناس واعلم الناس واحسن الناس راَیاَفی العامة، یعنی حضرت عائشہ لوگوں میں سب سے بڑی فقیہ، عالم اور رائے عامہ میں احسن تھیں۔ حضرت زھری فرماتے ہیں: ‘لوجمع علم الناس کلھم ثم علم ازواج النبیۖ نکانت عائشة اوسعھم علماً” یعنی اگر تمام لوگوں کے علم کو یکجا کیا جائے پھر ازواج نبی کے علم کو تو حضرت عائشہ کا علم سب سے زیادہ وسیع ہوگا۔ مذکورہ روایتوں سے یہ بات مترشح ہوگئی کہ حضرت عائشہ کا سینہ علم ومعرفت کا لازوال گنجینہ تھا جس کا اعتراف صحابہ کرام نے بھی کیا ہے۔
یہ آپ کی خوشی بختی تھی کہ آپ کا حجرہ مبارکہ مسجد نبوی کے عین متصل تھا۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ سرور کائناتۖ اپنے صحابہ کے مابین صحن مسجد میں جو کچھ بھی پندو نصیحت فرماتے آپ بغور سنتیں اور محفوظ فرما لیتیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی آپ کی عادت کریمہ تھی کہ نبیۖ کریمۖ کی بارگاہ میں بلاجھجک مسائل دریافت کرتیں اور جب تک کماحقہ تشفی نہ ہوجاتی خاموش نہ رہتیں۔ چنانچہ احادیث کی کتابوں میں اس قسم کے بے شمار واقعات درخشاں نظر آتے ہیں جو آپ کی جستجوئے علم پر روشن دلیل ہیں۔
٭٭٭