آج ہم اپنا کالم لکھنے بیٹھے ہیں تو ہمیں پاکستان کی شدید ابتر صورتحال کے حوالے سے معروف شاعر، دانشور اور کراچی یونیورسٹی و ضیاء الدین یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کا شہرہ آفاق شعر ”قوم اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی، صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو’۔ موجودہ حالات و عوام کی ابتر حالات زندگی کا صحیح عکاس نظر آتا ہے۔ آج کی بات ہی نہیں حالات کے بگاڑ کے یہ سلسلے اور ذاتی اغراض کے تحت سارے ہتھکنڈے وطن عزیز کو ایسے موڑ پر لے آئے ہیں جہاں تباہی، بربادی، انتشار و عدم استحکام کے سواء کچھ نظر نہیں آتا۔ اس منفی تماشے کے ذمہ دار پیرزادہ قاسم کے الفاظ میں وہ صاحبان اختیار ہیں جو ملک کے استحکام، آئین، قوانین، انصاف و عدل اور جمہوریت و جمہور کی بقاء کے ذمہ دار ہیں اور اپنی مفاداتی حرکات کے باعث نہ صرف اداروں کی بلکہ قوم کو بھی زندگی کو اندھیروں اور تیرگی میں ڈبو چکے ہیں۔ حالات اس ڈگر پر پہنچ چکے ہیں جہاں بہتری یا واپسی کا کوئی آپشن بظاہر نظر نہیں آتا۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی یہ صورتحال سوائے نا امیدی اور عدم استحکام کے کسی بہتری کا کوئی اشارہ نہیں دے رہی ہے۔ سیاسی مخالفت نفرتوں میں اس حد تک تبدیل ہو چکی ہے کہ یا تم یا ہم تک پہنچ چکی ہے۔ نفرت انگیزی کا یہ زہر سیاسی اشرافیہ تک ہی نہیں، عوام میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ منافرت اور تقسیم کا یہ عمل اب ملک کے آئینی، اسٹریٹجک، عدالتی، انتظامی اداروں میں بھی واضح نظر آرہا ہے اور نفرتوں کی یہ خلیج دن بہ دن بلکہ لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیوں اور کس لیے ہو رہاہے کہ نہ آئین کی کوئی توقیر ہے، نہ انصاف کے اداروں اور فیصلوں کا احترام ہے اور نہ ہی انتظامی و حکومتی سطح پر ملک و قوم کی بہتری کیلئے کوئی اقدام نظر آتا ہے۔ ہم تو ان بگڑتے ہوئے قومی مفادات کیخلاف حرکات و منفی اقدامات کے ناطے لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں لیکن شاید ان ارباب اختیار کو اپنے مفادات اور خود غرضانہ خواہشات کے پیش نظر وطن اور عوام کی بہتری کسی طرح کبھی عزیز نہیں۔ گزشتہ ایک سال قبل منتخب حکومت کو عدم استحکام کی تحریک سے ختم کئے جانے کے کھیل، بعد ازاں دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے نتیجہ میں جمہوری و آئینی راستہ تحلیل شدہ اسمبلیوں کے90 دن میں انتخابات کرا دیئے جانے کا تھا لیکن اپنی شکست کے خوف اور عمران خان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے تناظر میں حکومتی اشرافیہ نے آئین، انتخابی قواعد و ضوبطوں کے برعکس مختلف چالوں اور غلط توضیحات سے پارلیمان اور الیکشن کمیشن کے توسط سے معاملے کو تعطل میں ڈالنے سے اورغیر جمہوری اقدامات کا راستہ اختیار کیا۔ حد یہ کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے انتخابات کے انعقاد کے فیصلے پر عمل کرنے سے بھی موجودہ حکومتی اشرافیہ خصوصاً ن لیگ انکاری ہے۔ ایک جانب تو حکومتی ٹولے نے پارلیمان کے توسط سے اس فیصلے کو مسترد کر دیا تو دوسری طرف عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن کیلئے مطلوبہ اخراجات کی رقم کی ادائیگی کے معاملے کو بھی ادھوری پارلیمنٹ کے فیصلے پر ٹال دیا جو کسی بھی ضابطے کیخلاف ہے۔ مبصرین کے مطابق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے استرداد اور مطلوبہ رقم کی الیکشن کمیشن کو ادائیگی بروقت نہ کرنے کے باعث حکومت (ن لیگ) نے وزیراعظم کو خود کش جیکٹ پہنا دی ہے اور موصوف کی نا اہلی کا راستہ کھول دیا ہے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ عدالت عظمیٰ میں بھی ذاتی و گروہی بنیادوں پر مذکورہ فیصلے پر نہ صرف منقسم ہے بلکہ ان کے اختلافات کُھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی 10 اپریل کو قومی اسمبلی میں شرکت اور خطاب ہے۔ یہ اقدام نہ صرف آئین و عدالتی ضابطہ کیخلاف ہے بلکہ اس امر کی بھی نشاندہی ہے کہ مستقبل کا چیف جسٹس کس سوچ کا حامل ہے یا پھر موجودہ چیف جسٹس سے اختلاف کی خلیج کتنی گہری ہو چکی ہے۔ دوسری طرف موجودہ چیف جسٹس نے قاضی عیسیٰ کے ایف بی آر کیس میں کیوئیٹو ایکشن لے کر اس سچ کو واضح کر دیا ہے کہ اعلیٰ ترین عدلیہ میں اختلاف کس حد پر پہنچ گیا ہے۔ ادھر چیف الیکشن کمشنر نے پارلیمنٹ کو خط لکھ دیا ہے کہ میرے اختیارات سلب کئے جا رہے ہیں۔
گویا ان کا اشارہ بھی عدلیہ کے فیصلے کی طرف ہے، ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ایک جملہ تحریر کیا تھا کہ مقتدرین بھی بوجوہ عمران کے حوالے سے شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ ایک منجھے ہوئے تجزیہ کار نے گزشتہ روز ایک پروگرام میں کپتان کی مقبولیت پر اتفاق کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ مقبولیت کیساتھ قبولیت بھی ضروری ہے۔ یہ تبصرہ ہمارے متذکرہ بالا جملے کی شہادت ہی نہیں، اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ وطن عزیز میں اقتدار مقبولیت نہیں قبولیت کا رہین ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ قبولیت کس کا اختیار ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک جانب تو دستور (آئین) پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔ یادگار دستور اور دستور پارک کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بانیان دستور کو خراج عقیدت اور اظہار احسان مندی کیا جا رہاہے تو دوسری طرف یہ دوغلے حکمران آئین کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں، موقننیٰ عدالت، سیاست و عوام کے حوالے سے خلاف آئین، جمہوریت، انصاف و حقوق عوام حرکتوں پر اُترے ہوئے ہیں۔ دستور کے بانیوں کی وراثت کے دعویدار زرداری، بلاول، ایمل ولی خان، فضل الرحمن یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے بزرگوں نے کس جانفشانی سے متفقہ آئین بنایا تھا، آج اپنے اقتدار، مفادات اور غاصبانہ ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے نہ صرف آئین و جمہوری اقدار کی پامالی بلکہ ملک و عوام کی سب سے مقبول جماعت اور اس کے قائد کیخلاف سازشوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اپنے ناپاک و قابل مذمت ایجنڈے میں انہوں نے آئینی، انتظامی، عدالتی، میڈیا، سیکیورٹی اداروں اور عوام میں اختلاف و دشمنی کی دراڑیں ڈال دی ہیں۔
یہ ساری صورتحال وطن عزیز کی سلامتی، ترقی و خوشحالی سے دشمنی ہی نہیں، پاکستان کے دشمنوں کو کُھل کھیلنے کی بھی دعوت ہے۔ وطن عزیز دہشتگردوں، اغواء کاروں، ڈاکوئوں کی چیرہ دستیوں میں ہے، ہر روز وطن کی حفاظت و سلامتی پر مامور بیٹے جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں،ا من و امان ختم ہو چکا ہے، عوام مہنگائی اور زندگی گزارنے کے سبب محروم نظر آتے ہیں لیکن غرض کے مارے حکومتی مافیا اور اس کے سہولت کاروں کو اپنے اقتدار و مفاد کے علاوہ کسی بات کی پرواہ نہیں۔ اس صورتحال سے نپٹنے کا واحد راستہ اور حالات کی بہتری انتخابات اور عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے میں ہی ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا کہ یہ شفاف و منصفانہ انتخابات کرائیں گے کہ ان مفاد پرستوں کے لیے قوم کی قسمت میں تیرگی ہی ان کے مکروہ عزائم کی کامیابی ہے۔ آئین جمہوریت اور عوام کی دشمنی آخر کب تک جاری رہے گی یا ملک ایک بار پھر بوٹوں کی آوازیں سنے گا۔
٭٭٭