لذت صحرا نوردی دورء منزل میں ہے !!!

0
11

ویسے تو اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام دسمبر کو لاہور میں ہوا تھا لیکن میں نے یہ نام پہلی مرتبہ اس وقت سنا جب میری عمر دس سال کی تھی اور کسی باقاعدہ سکول میں داخلے کی تیاری میں تھا۔ وہ باقاعدہ سکول، جماعت اسلامی کا قائم کیا ہوا ادارہ شاہ ولی اللہ کالج، منصورہ ثابت ہوا، جہاں درجہ آغاز میں داخل ہوکر تعلیم و تربیت کے ایک قیمتی گہوارے تک رسائی حاصل کر لی۔ اسی دوران، ظفر جمال بلوچ صاحب، وہاں کا دورہ کرنے پہنچے تو زندگی میں پہلی بار، جمعیت کے ایک ناظمِ اعلی سے ایک یادگار ملاقات ہو گئی۔اسلامی جمعیت طلبہ جیسی عظیم الشان تنظیم کا رفیق اپنی ساتویں جماعت میں بنا تو اسے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا۔ اس وقت تو بہت خوشی ہوئی اور ہم بڑے فخر اسے اپنے آپ کو رفیق کہلاتے رہے لیکن بعد میں جب عرب دنیا سے واسطہ پڑا تو پتہ چلا کہ رفیق اور حبیب میں بڑا فرق ہے۔ ہمارے عرب بھائی، رفیق کی اصطلاح کوئی اچھے معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ خیر جب اس کا پتہ چلا تھا تو ہم رفاقت و رُکنیت کی حدود سے آزاد ہو کر عملی زندگی میں داخل ہو چکے تھے۔میرا جمعیتی دور (بہتر سے پچاسی تک)، بھٹو اور ضیاالحق کے حکومتی ادوار پر محیط رہا۔ بھٹو کے دور میں سویلین سیاست اپنے عروج پر تھی۔ پروفیسر غفور، مولانا نورانی، مفتی محمود، ولی خان اور نوابزادہ نصراللہ جیسے رہنما اور زعما، پاکستانی سیاست کو میسر تھے۔ بھٹو دور میں، حکومت کی سخت مخالفت کے باوجود، جماعت اسلامی اور جمعیت نے خوب ترقی کی۔ خاص طور پر جمعیت نے تو تقریبا سارے قابلِ ذکر تعلیمی اداروں میں، طلبا کی فکری اور سیاسی تربیت کے محاذ پر اپنے جھنڈے گاڑ دئیے۔ لگ رہا تھا کہ پانچ دس سال اگر مزید اسی طرح کام ہوتا رہا تو پاکستان کی جمہوری قوتیں، عسکری قوتوں سے زیادہ مضبوط ہو جائیں گی۔وائے قسمت کہ میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی اور اس کے کچھ عرصے بعد، تعلیمی اداروں میں بھی طلبا کے بنیادی حقوق سلب کر لئے گئے۔ جمعیت نے میں لگائی گئی پابندیوں کو بڑی ہمت اور جرت سے چیلنج کیا مگر خود جماعت کے رہنمائوں کی اکثریت نے بھی مقتدرہ کا ساتھ دیا اور طلبا سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ ضیا الحق کے خلاف جمعیت کی تحریکِ مزاحمت میں، مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ جمعیت نے خوب قربانیاں دیں۔ قید و بند کی صعوبتوں کے علاوہ، سیکیورٹی فورسز کے ظلم و جبر کو بھی برداشت کیا۔ لاہور میں روزانہ تین چار مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوتے تھے۔ اکثر طلبا، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو متاثر کرنے کیلئے، بسوں کے ٹائر پنکچر کردیتے تھے۔ شہر کی دیواروں پر چاکنگ اور پمفلٹ کی تقسیم کا کام بھی تسلسل سے ہوتا تھا۔تقریبا چھ ماہ تک جاری رہنے والی یہ تحریک، بالآخر کمزور پڑ گئی اور ضیاالحق کامیاب ہو گئے۔اسلامی جمعیت طلبہ کے ستر سال، مثبت اقدار کے فروغ سے عبارت ہیں، مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی تحریروں اور تقریروں سے متاثر ہونے والے ان طالب علموں نے اپنی عملی زندگیوں میں آج بھی امانت و دیانت کے اصولوں کو اپنایا ہوا ہے یہاں امریکہ میں بھی تقریبا ہر مسجد اور اسلامی ادارے کی بنیادوں میں جمعیت کے گریجوئیٹس کی کاوشیں شامل ہیں۔ میرے لئے جمعیت ایک ایسی منفرد یونیورسٹی ہے جس کے طالبِ علم، پرائمری سے لے کر ڈاکٹریٹ تک کی ہر طرح کی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی تربیت کا انتظام قرآن و سنت کے سنہری اصولوں کے مطابق ہوتا ہے اور انسانیت کا درد ان کی دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ تعمیر کردار اور تطہیر افکار کی اصطلاحیں، میں نے جمعیت کے پروگراموں میں ہی سنیں۔ نظم و ضبط کے اصول بھی وہیں سے سیکھے۔ اُخوت اور باہمی تعلقات کی شاندار مثالیں بھی وہیں نظر آئیں۔ نوجوان خون کے حامل طلبا کبھی کبھی آپس میں لڑائی بھی کر لیتے تھے اور پھر صلح صفائی بھی ہو جاتی تھی۔ جمعیت کا خوبصوت اور مثر نظم، ہمیشہ امن و امان کا رکھوالا رہتا تھا۔شرپسند عناصر، جنہیں مثبت اندازِ فکر سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے، فساد پھیلانے کی کوششیں کرتے رہتے تھے۔ ان سے نبٹنا ایک چیلنج تو ہوتا تھا لیکن الحمداللہ، جمعیت کی لیڈرشپ اکثر معاملات کو بحسن و خوبی، سلجھا دیتی تھی۔
اسلامی جمعیت طلبہ کی اندرونی اصطلاحات اور طریقہ کار سے خاصے لوگ واقف نہیں۔ جمعیت ایک کنٹرولڈ جمہوریت کی حامل، بڑی مضبوط تنظیم ہے۔ کنٹرولڈ اس لئے کہ ممبرشپ کے کئی درجے ہیں اور صرف اعلی درجے کے ممبر، رکن ہی اعلی لیڈرشپ کے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس کنٹرولڈ جمہوریت کی وجہ سے غیر ضروری سیاست سے بھی نجات مل جاتی ہے اور اکثر بہتر لوگ ہی قیادت کے مقام تک پہنچتے ہیں۔
جمعیت بھی چونکہ انسانوں کی ہی ایک تنظیم ہے تو اس میں بھی خوبیاں اور خامیاں دونوں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور ان کا ازالہ بھی، لیکن جمعیت کو سوسائٹی کے معیار سے بہت آگے رکھ کے پرکھنا، ناانصافی ہوگی۔ غلطیوں سے مبرا تنظیم تو کوئی نہیں ہو سکتی البتہ اسے آپ بہت ساری دیگر تنظیموں سے بہت بہتر پائیں گے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے دستور میں تنظیم کا نصب العین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الہی کا حصول درج کیا ہے۔ ان کی ساری جدوجہد اسی نصب العین کے ارد گرد ہی رہتی ہے۔ترمذی کی حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے قدم اس وقت تک ہٹ نہیں سکیں گے جب تک وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دیدے ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ جوانی کی توانائی کہاں خرچ کی ؟خوش قسمت ہیں وہ نوجوان جنہوں نے جمعیت جیسی تنظیم کا حصہ بن کر جوانی کی توانائیوں کو رضائے الٰہی کے حصول میں صرف کیا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here