مظفر آباد آزاد کشمیر میں ایک قومی کانفرس میں شمولیت کے لیے اکتوبر کو گیا۔ شعب اردو کے صدر نشین ممتاز ادبی دانشور ڈاکٹر میر یوسف میر ملاقات کے لیے تشریف لائے اور نیلم ایویو ہوٹل میں عشائیہ کی دعوت دی۔ کہنے لگے آپ کے اعزاز میں اس عشائیہ میں چند شاعروں اور دانشوروں کو بھی مدعو کر رہا ہوں۔ میں نے کہا جس کو بھی آپ چاہیں مدعو کریں لیکن میری خواہش ہے کہ محمد شفیع ناز مظفر آبادی صاحب کو ضرور مدعو کریں۔ ان سے ملاقات کا اشتیاق ہے۔ رات کو عشائیہ پر ان سے ملاقات ہوئی۔ جیسے سنا تھا ویسے ہی ان کو پایا۔ ایک خوبصورت اور خوب سیر ت انسان۔ کم گو اور ایک مدبر شخصیت۔ نہایت متین و فطین۔ چہرہ متبسم، نگاہیں متفکر اور سراپا شاعر۔ بقول الطاف حسین حالی!
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
یا اگر علامہ اقبال کی زبان میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا
عمر ہا درِ کعبہ و بتخانہ می نالد حیات
تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں
عشائیہ کے اختتام پر میں نے ناز صاحب کو استاد فوق لدھیانوی مرحوم کا ایک شعر جو ان کے شعری مجموعہ زخمِ جاں میں شامل ہے سنایا تو آپ نے بہت پسند کیا۔ شعر ہے!
حسن ادھر ہے ناز میں، عشق اِدھر نیاز میں
مارا گیا غریب دل دونوں کی ساز باز میں
ناز صاحب نے مجھے اپنے دو شعری مجموعے فاصلہ اور ہم سخن عنایت کیے،ناز صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ اردو شاعری کا معتبر نام اور مستند حوالہ ہیں، آزاد کشمیر میں ان کا شمار صفِ اول کے شعرا میں ہوتا ہے۔آپ کی اصنافِ سخن میں حمد، نعت، غزل، نظم اور قطعات شامل ہیں۔ آپ کئی ادبی تنظیمیں کے سر پرست رہے ہیں۔ آپ نے ادبی تنظیم بزمِ شعر و سخن کی بنیاد رکھی۔ کئی عالمی مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ آپ کی درجِ ذیل تصانیف بہار آنے تک ، دسترس، ھم سخن، سرگوشی، حرف آشنا، اسے کہنا، فاصلہ، اور حاصلِ عشق شائع ہو کر اہلِ فکر و نظر سے دادِ تحسین پا چکی ہیں اور اردو شاعری میں گراں قدر اضافہ ہیں جس پر اہلِ کشمیر کو فخر ہے گویا ناز پر اہلِ کشمیر نازاں ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کی شاعری اور شخصیت پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں ۔ کسی کی زندگی میں اس پر پی ایچ ڈی کی سطح پر مقالہ جات کا لکھا جانا بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ناز مظفر آبادی کی غزل میں علامت سازی اور ناز مظفر آبادی کی شاعری میں مرکبِ اضافی کا استعمال کے عنوانات سے آپ پر لکھی گئی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔
یہ رتب بلند ملا جس کو مِل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
اب آپ کا نواں شعری مجموعہ شائع ہو رہا ہے۔ ان کے عطا کردہ دو شعری مجموعے ھم سخن اور فاصلہ کا میں نے مطالعہ کیا۔ آپ کی شاعری سہلِ ممتنع کی آئینہ دار ہے۔ زبان سادہ و سلیس اور مترنم ہے۔ کلاسیکل رنگ و آہنگ اور جدید فکر ہے۔آپ کی شاعری رومانوی، سماجی، سیاسی، عرفانی، وجدانی اور انقلابی ہے۔ ایک گلدست صد رنگ ہے۔ ھم سخن سے دو شعر سنیے اور سر دھنیے ۔ کہتے ہیں
سفر میں زادِ سفر کو، نہ گھر کو دیکھتے ہیں
جو چل پڑیں تو تری راہگزر کو دیکھتے ہیں
غموں کی دھوپ میں یوں دیکھتے ہیں تیری طرف
کہ جیسے تھک کے مسافر شجر کو دیکھتے ہیں
فاصلہ کی غزلیات بھی دلسوز اور فکر انگیز ہیں۔ آپ غزل کے مستند شاعر ہیں۔ آپ کو اِس صنفِ شاعری پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ بطور مشتے از خروارے دو شعر ملاحظہ کیجئے
کچھ اِس لیے بھی مجھے زندگی عزیز رہی
ہمیشہ ساتھ رکھی اپنے شاعری میں نے
جتا رہا تھا وہ احسان اپنے گِن گِن کر
پھر اِس سے آگے کوئی بات ہی نہیں کی میں نے
آپ نے اپنی شاعری کی زیرِ طبع کتاب کی پی ڈی ایف واٹس ایپ پر بھیجی ہے اور اِس کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ آپ کی شاعری پر کچھ لکھنا میرے لئے باعثِ اعزاز ہے۔ من آنم کہ من دانم ۔یہ شعری مجموعہ بقع نور، شمعِ شعور اور شعل طور ہے۔ یہ شاعری زندگی کی شاعری ہے۔ زندگی کے حقائق اور زندگی کے اسرار و رموز کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب زندگی کی تلخیوں کی عکاس ہے۔ روح کی پیاس۔ انقلاب کی امید و آس ہے۔ سماجی اور سیاسی نوعیت کے اشعار ملاحظہ ہوں
مسلسل جھوٹ بولا جارہا ہے
فضا میں زہر گھولا جا رہا ہے
وہ جن کی دو ٹکے قیمت نہیں تھی
انہیں ہیروں میں تولا جا رہا ہے
وطنِ عزیز کے سماجی، معاشی،معاشرتی ، سیاسی نظام کے منہ پر یہ اشعار ایک زور دار طمانچے سے کم نہیں۔ یہ اشعار نظامِ زور و زر اور شور و شر کے خلاف بغاوت ہے۔ استکبار، استبداد اور استعمار کی نفی ہیں۔ آپ کے لاشعور میں احترامِ انسانیت اور مساواتِ بشر جاگزیں ہے۔ کہتے ہیں
انصاف اس کے ساتھ بتا کیوں نہیں ہوا
وہ بے قصور تھا تو رہا کیوں نہیں ہوا
ایک غزل میں یوں نوا سنجِ فغاں ہیں
جب توقع ہی نہیں عدل کی ہم کو منصف
فائدہ کیا ہے جو زنجیر ہلانے لگ جائیں
خودی و خودداری کایہ عالم ہے کہ ایک غزل میں کہتے ہیں
ہمیں خبر تھی کہ فرصت نہیں زمانے کو
کسی کے سامنے اپنا سوال کیا کرتے
آپ کی طبیعت میں شاعرانہ خودی اور خوداری آپ کے متعدد اشعار میں نمایاں ہوتی ہے۔کہتے ہیں
ہاتھ پھیلاتے نہیں ہیں، نہ صدا دیتے ہیں
ہم ترے شہر میں آتے ہیں دعا دیتے ہیں۔
آپ کے اس شعر میں میر تقی میر کی خود داری جھلک رہی ہے۔ میر صاحب بھی فرما گئے تھے
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
انقلابی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ کی شاعری میں جذب محبت کی فراوانی، جذبات کی جولانی، آتشِ جوانی اور کیفِ وجدانی کی کثرت پائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں
محبت کے وعدے ہوا میں اڑا کے
بہت خوش ہیں وہ، ہم سے دامن چھڑا کے
آپ کے کلام میں عصری حسیت ،انسانی حمیت، قومی غیرت اور انقلابی شدت بہ کثرت جلوہ گر ہے۔
میں اہلِ کشمیر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ جہاں ہمیں غنی کاشمیری، مرزا داراب جویا، حبہ خاتون، مہجور، آزاد،محمود گامی، چراغ حسن حسرت، تحسین جعفری اور احمد کشفی جیسی ادبی شخصیات پر ناز ہے وہاں ہم ناز مظفر آبادی پر بھی نازاں ہیں۔
٭٭٭