پاکستان کا مظلوم آئین!!!

0
4

قیام پاکستان سے لے کر 1956 تک پاکستان کا نظام بغیر آئین یعنی سوشل یا پولیٹکل کنٹریکٹ کے بغیرا چلتا رہا۔ بڑی تگ و دو کے بعد جب 1956 کا آئین بنا جس پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اتفاق کیا تھا کہ اس وقت کے صدر سردار سکندر مرزا نے آئین کو بکواس قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو اپنی کابینہ میں وزیر دفاع بنا دیا۔ جنرل ایوب نے چند ہفتوں کے بعد سکندر مرزا کو گرفتار کر کے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔ 1956 کے آئین کو ایک دن کیلئے بھی ملک میں نافذ نہیں کیا گیا۔ ایوب خان نے مارشل لا لگا کر 1962 میں پارلیمانی نظام کو پاکستان کیلئے غیر موزوں قرار دے کر اس کی جگہ صدارتی نظام نافذ کر دیا۔ 1962 میں جنرل ایوب خان نے ملک کو نیاآئین دے دیا۔ اس آئین کو ایوب کے مقرر کردہ کمانڈر انچیف جنرل یحیی خان نے منسوخ کر کے 1969 میں مارشل لا لگا دیا۔ جنرل یحیی خان نے اپنا نیا آئین دینے کیلئے بھی کوشش شروع کر دی تھی۔ مشرقی پاکستان کے المیہ نے جنرل یحیی خان کو اپنا آئین دینے کا موقع نہیں دیا۔ بچے کھچے پاکستان میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ملک کا نظام چلانے کیلئے انہیں مارشل لا کا سہارا لینا پڑا۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ بھٹو کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے عبوری آئین اور پھر مستقل آئین دیا۔ 1973 کے آئین کا بننا بڑا مشکل تھا کیوں کہ بھٹو صاحب کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ تمام اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی سے شاکی تھیں ۔ اس کے باوجود بھٹو نے منت سماجت کر کے اپنے کٹر سیاسی مخالفین جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو الاعلی مودودی اور نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ عبد الولی خان اور دوسرے قائدین کے ساتھ 1973 کے آئین کیلئے اتفاق رائے پیداکرنے میں کامیاب رہے تھے۔ خود مسٹر بھٹو کے دور حکومت میں سات سے زیادہ ترامیم کی گئیں۔ جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا لگا کرآئین کو باطل کرایا اور مارشل لا کے تحت ملک چلایا۔ 1977 سے 1985 تک پاکستان آٹھ برس تک مارشل لا کے تحت چلا ۔ 1985 میں بین الاقوامی دبائو کے تحت جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے تو موصوف پر مارشل لا اٹھانے کیلئے اندرونی اور بیرونی دبائو بہت بڑھ گیا تھا ۔ جس پر جنرل ضیا الحق اور ان کے رفقائے کار نے اس شر ط پرمارشل لا اٹھا یا کہ 1973 کے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 58(B) شامل کرایا جائے گا ۔ جس سے 1973 کے پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کی گویا واپسی ہو گئی۔ اس نظام میں وزیراعظم ایک کٹھ پتلی بن کر رہ گیا۔ صدر نے 58۔2(B) کے تحت محمد خان جونیجو ، نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتیں گھر بھیج دیں۔ 1997 میں جب فوج کی مدد سے نواز شریف د و تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئے تو انہوںنے آرٹیکل 58(B) کو پیپلز پارٹی کی مدد سے آئین سے نکال دیا۔ لیکن دو سال کے اندر ہی 12 اکتوبر1999 کو جنرل مشرف کی قیادت میں فوج نے مارشل لا لگا دیا جو 2006 تک جاری رہا۔ 1973 کا آئین ایک مرتبہ پھر آزمائش سے دوچار ہوا اور ترمیم کرائی گئی۔ پھر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے مل کر اٹھارویں ترمیم کر دی ۔ اس ترمیم پر بھی ابھی تک لے دے ہو رہی ہے۔ 1973 کے آئین میں اب جو چھبیسویں ترمیم ہوئی ہے اس نے پاکستان کی عدلیہ، جس کی آزادی کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے، اسے مخصوص مفادات کی خاطر ایگزیکٹو کے تابع کر ادیا ہے۔ سینئر قانون دانوں اور اعلی دانشوروں کا خیال ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو سلب کرلیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے ایک وعدے کے باوجود کہ جو سیاہ ناگ آئین میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی ، اس ناگ کے دانت توڑ دئیے گئے ہیں تاہم قانون اور عدالتی نظام سے واقف حلقے کہتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی سلب ہو چکی ہے۔ ملک کے اندر چھبیسویں ترمیم پر تنقید جاری ہے لیکن اس دوران انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹس نے پاکستان میں ہونے والی چھبیسویں آئینی ترمیم پر تبصر ہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کی تقرری میں سیاسی اثرو رسوخ غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چھبیسویں ترمیم عدلیہ کی آزادی کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے آئین میں ترمیم کیلئے دکھائی گئی عجلت پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے کنڑول میں دے دیا گیاہے۔ ملک کے اندر قومی اسمبلی اور سینٹ میں چھبیسویں ترمیم کیلئے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے جس طریقے سے اپوزیشن ارکان پر دبائو ڈالا گیا، ان کو مبینہ طورپر اغوا کیا گیا ،اس پرسخت نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے ادارے ہیومن رائٹس کمشین آف پاکستان نے آئینی ترمیم کو عدلیہ کی آزادی کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔اس سے قبل پاکستان کے چوٹی کے تین سو وکلا نے بھی چھبیسویں ترمیم سے عدلیہ کی آزادی کو اپنے خط کے ذریعے لاحق خطرات کی نشاندہی کر دی تھی۔ 1973 کا آئین بڑا مظلوم ہے، جس کو کبھی مارشل لا کے ذریعے اور کبھی سویلین حکومتوں کے ذریعہ سیاسی مصلحتوں کے تحت تختہ مشق بنایا جاتارہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here