پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نفسیاتی مریض حکمران ہیں،سابقہ چیف جسٹس نفسیاتی مریض تھے۔ جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم بھی ایک نفسیاتی مریض ہیں۔ہماری بدنصیبی ہے کہ ذہنی بیمار قوم پر مسلط ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی اخلاقی ،معاشی اور نظریاتی بنیادیں ہلادی ہیں،جب ساری توجہ اقتدار اور طاقت کے حصول پر ہو تو کمزور ہوا کرتی ہے۔ یاد رکھئیے! اقتداراور طاقت ۔ہمیشہ نہیں رہتا۔ایک نہ ایک دن ریٹارمنٹ یا زندگی کا خاتمہ ضرور ہونا ہے۔باقی رہنے والی صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے۔لاکھوں انبیا دنیا میں تشریف لائے۔ایک معین وقت پر اللہ کے خضور پیش ھوئے۔امام الانبیا ۔ سرور کائنات ۔ خاتم النبین جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ اسلم بھی اللہ کے خضور پیش ھوگئے۔ہم کیا چیز ہیں؟ ہماری کیا حیثیت ھے ؟ اور ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔؟ جو طاقت ملنے پر متکبر بن جاتے ہیں۔ہم وہ دھوکے باز، ظالم اور گنہگار ہیں۔جو ظلم بھی کرتے ہیں حق تلفی بھی۔بدیانتی بھی کرتے ہیں اور چوری بھی۔ جہاں بس چلتا ہے وہی نقب لگاتے ہیں۔اگلی صف میں نماز کے لئے جھگڑتے بھی ہیں ۔بے انصافی بھی کرتے ہیں۔اور ظلم بھی۔ اپنی طاقت کے ناجائز استعمال کو حق سمجھتے ہیں۔یہ بھول جاتے ہیں کہ کل مرنا بھی ہے۔ ہمیں عہدے کے ناجائز استعمال کا اور منصب کا ، ایک ایک لمحہ ۔ایک ایک ساعت کا جوابدہ ہونا ھے۔اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ۔ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے اللہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ھوتے ہیں۔ کفنائے اور دفنائے کے وقت ۔ خالی ہاتھ خالی جیب۔ ویسے کفن کی تو کوئی جیب بھی نہیں ھوتی۔ساتھ کچھ نہیں جائے گا۔ صرف اعمال و کردار ساتھ جائیں گے۔ نجانے کیوں اپنی اخروی زندگی کے لئے اندھن اور آگ کے آلا میں اضافہ کرتے ہیں۔ہم وہ بدنصیب ہیں کہ جنہیں پرچہ گزٹ کے ساتھ تھمایا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود سوالوں کے جواب ،تیار نہیں کرپاتے۔ کیا شیطان نے اسی لئے خضرت انسان کو سجدہ سے انکار کیا تھا ؟ قارئین!۔ اس کا جواب اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں ھمارے اعمال کے ساتھ منسلک کیا ھے۔جس مٹی سے بنائے گئے ہیں اسی مٹی میں واپس جانا ھے۔تو پھر اکٹر کس بات کی؟دنیا میں جج چوروں کو سزا دیتے ہیں۔پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ھے جہاں چور ججز کو سزا دیتے ہیں ۔چور جیلوں میں ھوا کرتے ہیں ۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چوروں کو اقتدار کی کرسی فراہم کی جاتی ھے۔ بڑا چور وزیراعظم اور صدر ۔چھوٹے چور وزیراعلی ،وزیر اور مشیر۔ یہ مسلم معاشرے کی بدنصیبی ہے کہ بڑے لوگ وکلا اور قانون دانوں پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ جج ہی خرید لیتے ہیں۔ابھی کل کی کی بات ہے۔ ایک چیف جسٹس جو ایک غنڈہ تھا۔ کسی وکیل کو خاطر میں نہیں لاتا رھا۔ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا تھا۔ آج اسکے ساتھ ریٹارڈ کا اضافہ ھو گیا ہے۔ ریٹارڈ جسٹس قاضی فائز عیسی جو فی الحال پاکستان چھوڑ چکا ہے۔ انہیں ہر گلی، ہر موڑ اور ہر سٹور پر لعنتیں ہی برسیں گی۔ قاضی فائز عیسی بد دماغ اور متکبر جج تھا۔نظام عدل پر کلنگ کا ٹیکہ تھا۔ اپنی الوداعی تقریب میں اسکا کہنا تھا کہ ہمیں لکھے ھوئے پیپرز ملتے ہیں جن کی بنیاد پر ھم فیصلے کرتے ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ھے کہ ھم فیصلے غلط کرتے ہیں یا صیح ۔؟ اس لعنتی کردار کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس نے پاکستان کے جوڈیشل سسٹم کو کتنا بدبودار اور متعفن کیا ھے۔ قاضی فائز عیسی جج کم غنڈہ زیادہ تھا۔ جو کسی وکیل کو بولنے نہیں دیتا تھا۔ انتہائی بد تہذیب اور بداخلاق شخص مسلط تھا۔ جو جھوٹا اور غیر منصف تھا۔ اس کے فیصلوں سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہ شخص آئین پاکستان، رول آف لا اور حب الوطنی کی بات کرتا تھا۔ مدت ملازمت ختم ھونے پر چوبیس گھنٹے بھی ملک میں نہیں رکا۔
پاکستان ایک ایسا غیر جمہوری، ملک ہے۔کہ جہاں ججز، جرنیل اور کرپٹ مافیا اقتدار ختم ہوتے ہی ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔ انہیں اپنی بددیانتی، بداعمالئوں اور خباثتوں کااندازہ ھوتا ہے کہ انکا ظلم و ستم ، خود ان پر وطن عزیز کی زمین تنگ کردے گا۔ گزشتہ کء دھایوں سے ملک پر گونگے ، بہرے اور نفسیاتی مریض مسلط ہیں۔ جو مملکت خدادا پر گندے،متعفن اور بدبودار نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ جس نظام کے بینفشری ہیں۔یہ چور کبھی نہیں چاہتے کہ کوئی ایماندار جج، ایماندار جرنیل یا سنیارٹی پر پرموٹ ھو۔یہ لوگ اپنے جیسے منفی اور کریمنل ذہنیت کے حامل جرنیلوں اور ججوں کو لاتے ہیں تاکہ انکی دونمبریاں جاری رہ سکیں۔
انڈیا، چین روس بریکس میں نئی کرنسی پر متفق ہوچکے ۔ جس سے ڈالر کی تباہی اور پوری دنیا میں اکنامک بھونچال آتا دکھائی دیتا ھے۔ ہم بحیثیت قوم غفلت کا شکار ہیں ۔ حکمراں اور اسٹبلشمنٹ کی توجہ عالمی منظر نامے کے موجودہ خطرات کے برعکس ۔ننگی وڈیوز بنانے ،عدلیہ کو قابو کرنے، مخالفین کو سزا دینے پر مرکوز ھے۔ خدا جانے ہم ان بیہودگیوں سے کب باز آئینگے۔پار ڈاکٹرائن کا ٹرائیکا جو آئی ایس آئی۔ قاضی فائز عیسی اور ن لیگ مشتمل تھی۔جس سے انہیں بہت امیدیں وابسطہ ہیں۔۔ جو آئینی ترمیم کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ چار چار ارب روپے میں ارکان پارلیمنٹ لوٹے بنے۔ملک عدلیہ اور سسٹم کو اس ٹرائیکا نے تباہ کیا۔اب اس کے بینفشری پریشان ہیں۔ قاضی کے ساتھ کا پلڑا جھک چکا ہے۔ موجودہ رجیم قاضی کو کسی آئینی عہدے پر ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کررہی ھے۔ یاد رکھئیے آئیندہ ن لیگ،پہپلز پارٹی ،ایم کیو ایم اور انکے حواری اسی بدبودار نظام میں لپیٹے جائینگے۔گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا خط منظر عام پر آگیا۔جس میں آئی ایس آئی کے فاشزم کو ننگا کیا گیا ھے۔ خط میں لکھا ھے کہ پاکستان کا معتبر ادارہ اور ملک کا وقار آئی ایس آئی کیسے ججز کی فیملز کی ننگی وڈیوز بناتے رہے۔جب ملک کے سیکورٹی اداروں کا یہ کردار ھو ،تو ملکی اداروں کا ستیاناس ہی ھوگا۔
وہ بے شرم صحافی،بے شرم وکلا، بے شرم سیاسی گماشتے، اور بے حیا آرمی آفیسرز کے گھر بھی بہو بیٹیاں ہیں۔ جو اس بیہودگی پر نہیں بولتے۔ اگر انکی بہنوں کی ننگی وڈیوز بنائے جائیں تو کیا تب بھی نہیں بولیں گے۔ ایک دوست فرما رہے تھے جو خلف کی پاسداری نہ کرتے ہوں انکے نزدیک حیا شرم اور غیرت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پارلیمنٹ،عدلیہ اور میڈیا پر اسٹبلشمنٹ کا قبضہ ہے۔پارلیمنٹ بے وقعت ہے۔ارکان پارلیمنٹ کی حیثیت ربڑ اسٹمپ سے زیادہ نہیں۔
اس پارلیمنٹ کی کیا حیثیت ھوگی۔جس میں نقاب پوش ارکان اسمبلی کو اٹھا کر لے جائیں۔قارئین ! بیرون ملک اوورسیز پاکستانیوں کی حمایت سے محروم اسٹبلشمنٹ ۔ لابنگ کے لئے ایک لا فرم ہائیر کررہی ھے۔ تاکہ بیرون ملک فوج کا امیج بلڈ کیا جاسکے۔ہر پاکستانی اپنی فوج سے محبت کرتا ہے۔ان پر اپنی جان چھڑکتا ھے۔مگرغیروں کے دم چھلے جرنیلوں اور انکے حواریوں کو ناپسند کرتا ہے۔ جس نے پاکستان کو اس نیہج تک پہنچایا ھے۔ڈیموکریسی کا جنازہ نکالا ھے۔ہر ادارے میں گھس بیٹھیے فوجی قبضہ کرچکے ہیں۔
ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق لا،قانون اینڈ سیکورٹی میں ھم دنیا میں 145ویں نمبر پر ہیں۔ایک امریکی جج نے کئی سال پہلے کہا تھا کہ پاکستانی جج پیسوں کے لئے ماں بھی بیچ سکتا ھے۔ امریکی جج شاہد جرنیلوں کے کرتوت کا پتہ نہ ھو۔ جو اقتدار کے لئے ملک سالمیت بیچ دیتے ہیں۔
خدارا! ان اداروں کو کمزور نا کریں ۔ انکے خلاف نفرت پیدا نہ کریں۔ یہ ادارے ملکی بقا کی علامت ہیں۔ ملکی سلامتی کا نشان ہیں۔نظریاتی غیرت معاشرے کو زندہ رکھتی ہیں۔اس لئے نظریات کا تخفظ ھم سب کی ذمہ داری ھے۔آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں انہوں نے سیاست چھوڑنے کا وعدہ کیا مگر سیاست کو سیاستدان چھوڑ رہے ہیں۔فوج اسی طرح اداروں میں غیر آئینی مداخلت کر رہی ہے۔
فوج کو اپنے ادارے کو ان معاملات سے الگ کرنا چاہئے۔کیونکہ خطے کے حالات تیزی سے تبدیل ھو رہے ہیں۔ ھمیں بدلتے حالات میں اپنی معیشت،سیکورٹی اور دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے اپنے روئیے تبدیل کرنا ھونگے۔ اندرونی اختلافات ختم کرنا ھونگے۔ تاکہ ہم خطے میں ابھرتے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔
٭٭٭