فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
19

محترم قارئین! امیرالمئومنین، امام المتقین، خلیفہ المسملین، خلیفہ اول بلافصل، افضل البشر اور الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیدائش عام الفیل کے دوسرے سال ہوئی اور وصال باکمال بائیس جمادی الثانی13برس کی عمر مبارکہ میں ہوا۔ جمادی الثانی کا پورا مہینہ آپ کی خدمات دینیہ کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے اور انشاء اللہ العزیز قیامت تک پیش کیا جاتا رہے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ جن کا احاطہ طاقت بشریہ سے باہر ہے۔ یہ آپ کی عظمت تو پھر آپ کے آقا ومولیٰ ۖ کی عظمتوں کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہۖ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص راہ خدا میں کوئی سی دو چیزیں دے گا! اسے جنت کے دروازوں میں پکارا جائے گا۔ اے عبداللہ! یہ دروازہ اچھا ہے۔ کوئی کہے گا یہ دروازہ اچھا ہے۔ پس اگر وہ شخص اہل صلوٰة سے ہوگا تو اسے باب الصلواة سے پکارا جائے گا اور اگر وہ اہل جہاد سے ہوگا تو اسے باب الجہاد سے پکارا جائے گا اور اگر اہل صدقہ سے ہوگا تو اسے باب الصدقہ سے پکارا جائے گا اور جو اہل صیام سے ہوگا اسے باب الصیام سے پکارا جائے گا۔ حضرب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ تو اس شخص کی بات ہوئی جو بوجہ ضرورت ایک دروازے سے بلایا جائے گا۔ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جو ان سب سے بلایا جائیگا؟ آپۖ نے فرمایا کہ ہاں مجھے امید ہے کہ اسے ابوبکر! تم انہیں لوگوں میں سے ہو۔ حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا: اے ابوبکر! میری امت میں تم سب سے اول جنت میں داخل ہوگے۔ بخاری مسلم حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ مجھ پر اپنی ہم نشینی اور مال کے ساتھ تمام لوگوں سے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے احسان کیا ہے اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو دوست بناتا تو ابوبکر کو دوست بناتا۔ لیکن اخوت اسلام سب سے اچھی ہے۔ امام بخاری رضی اللہ عنہ نے ابن درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں آنحضرتۖ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور سلام کے بعد عرض کیا کہ میرے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ رنجش تھی جس میں ان کی طرف بڑھا۔ مگر پھر میں پشیمان ہوا اور ان سے درخواست کی کہ مجھے معاف کر دو لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اب میں آپ کی خدمت شریف میں حاضر ہوا ہوں۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ معاف فرما دے گا ادھر عمر بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو معاف نہ کرنے کی وجہ سے پشیمان ہوئے اور ان کے گھر گئے مگر انہیں وہاں نہ پاکر آنحضرتۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ انہیں دیکھ کر آنحضرتۖ نے چہرہ انور کا رنگ متفیر ہوگیا۔ حتیٰ کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ڈرے اور اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دو مرتبہ عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں نے ہی ان پر ظلم کیا ہے اور زیادتی میری طرف سے ہوئی ہے۔ رسول اللہۖ نے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے لئے مبعوث ہوا اور تم سب نے میری تکزیب کی۔ مگر ابوبکر نے میری تصدیق کی اور اپنے مال ونفع سے میری مدد کی اب تم میرے دوست کو چھوڑتے ہو(اس لفظ کو آپ نے دو دفعہ فرمایا) راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی کسی نے آپ کو تکلیف نہیں دی۔
ابن عدی نے اس حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنھا سے روایت کیا گیا ہے اور اس میں اس طرح مذکور ہے کہ پھر رسول اللہۖ نے فرمایا”میرے دوست کے معاملے میں مجھے تکلیف نہ دو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت اور دین حق عطا کرکے تمہاری طرف مبعوث فرمایا گیا تما تو تم نے میری تکذیب کی اور حضرت ابوبکر نے میری تصدیق کی۔ اگر اللہ انہیں صاحب کے لقب سے ملقب نہ کرتا تو میں اسے اپنا دوست بنا لیتا۔ لیکن اخوت اسلام ہی سب سے بہتر ہے۔ ابن عسا کر مقدام سے روایت کرتے ہیں کہ عقیل بن ابی طالب اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں ایک دفعہ گالی گلوچ کی نوبت پہنچی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے سباب یا نصاب تھے۔ لیکن انہوں نے عقیل رضی اللہ عنہ کی قرابت نبوی کا خیال کرکے اسے کچھ نہ کیا۔ اور آنحضرتۖ سے اس بات کی شکایت کی، اس پر آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا۔ اے لوگو! تم میرے دوست کو میرے لئے کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ اپنا حال اور اس کا حال دیکھو۔ بخدا ابوبکر کے گھر دروازے کے سوا تم سب کے گھروں کے دروازوں پر اندھیرا ہے۔ اس کے دروازے پر نور چمک رہا ہے۔ بخدا تم نے میر تکذیب کی اور ابوبکر نے میری تصدیق کی اور تم نے اپنے ماموں کو روکے رکھا۔ لیکن اس نے اپنا مال میرے لئے خرچ کیا اور تم نے مجھے بے مدد چھوڑ دیا مگر اس نے میری مدد کی اور میری تابعداری کی۔ سبحان اللہ جن کی عظمتوں اور شانوں کی تصدیق آمنہ کے لعل امام الانبیاء ۖ اپنی زبان حق ترجمان سے فرمائیں تو پھر ان کی عظمت اور شان کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟ بہرحال اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کو بہت بڑا مقام عطا فرمایا کہ سب علماء حق اس بات پر متفق ہیں کہ آپ افضل البشر بعد الابنیاء علیھم الصلواة والسلام ہیں، اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کے فیضان سے ہمیں وافرحصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here