محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے دعا بمقابلہ اعمال و وظائف یہ ایک ایسی کنفیوژن ہے اور ایک ایسا مخمصہ عام لوگوں کیلئے صاحبان علم سے ہٹ کر جس کی تشریح ضروری ہے ، حالت یہ آگئی ہے جب تک کسی کیلئے خاص وقت کوئی نقش نہ بنایا جائے اور اس کو مشکل ترین کرکے پیش نہ کیا جائے عام دعا سے تو لوگ لگتا ہے مانتے ہی نہیں، میرے ایک دوست کا کلینک تھا ،میٹروول کراچی کے علاقے میں مجھ سے شکوہ کرتے کاظم صاحب جب تک میں اپنے مریض کو دوائی کے ساتھ انجکشن نہ دوں وہ سمجھتا ہے میں نے علاج ہی نہیں کیا اور وہ ٹھیک نہیں ہوسکتا یعنی ڈاکٹر مریض کے ہاتھوں لاچار ! بس یہی حالت یہاں بھی ہے قارئین کرام آپ میری مثال سے سمجھنے کی کوشش فرمائیں جو بروقت یاد آگئی اور خوب یاد آئی !
عجیب حالت ہے لوگوں کی بھی۔ اس اخبار اور آن لائن اشتہاروں نے لوگوں کا دعائوں پر سے بھی یقین ختم کر دیاہے اگر کسی سے کہہ دیا جائے کہ آپ بھی دعا کریں میں دعا کرتا ہوں یقین رکھئے ان شاللہ کرم ہوگا تو جواب ملتا ھے نہیں نہیں آپ کوئی پکا عمل یا وظیفہ ہی دیں میں نے اس بارے میں کئی بار لکھا ہے کہ للہ رب العزت سے بہتر گمان رکھیں۔ ان شاللہ کرم ہوگا اور یہ تو للہ رب العزت کا خود کا ارشادہے۔ حدیثِ قدسی میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اسکا ذکر کرتا ہوں، وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں ،وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اسکی جانب جاتا ہوں (صحیح بخاری 6856،صحیح مسلم 4834 )اللہ رب العزت کے بارے میں حسنِ ظن ایمان باللہ کی بنیاد ہے اسکی رحمت، جودوسخا، اسکی ہیبت، اسکے قادر مطلق ہونے پر یقین ہمارے عقیدے کا لازمی جز ہے، مذکورہ بالا حدیث قدسی میں اللہ رب العزت صراحت کیساتھ بیان فرماتے ہیں کہ عبد کو معبود کی بابت ہمیشہ بہترین گمان رکھنا چاہیے کہ اللہ رب العزت کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا جب بندہ اللہ رب العزت کو دل کے یقین کیساتھ پکارتا ہے تو اسکا رب اسکی پکار کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا کہ یہ اس ذات باری تعالیٰ کی شان کے برعکس ہے کہ اسکا بندہ بہت مان سے دستِ سوال دراز کرے اور وہ عطا کرنے میں بخل کرے وہ تو غنی اور علی کل شیقدیر ہے! اسکا بندہ جب عاجزی سے اسے پکارے کہ یا للہ میں عاجز اور کمزور ہوں میری مدد فرمائیں تو یہ اس مجیب اور سمیع الدعوات کی شان کریمی کے خلاف ہے کہ وہ جوش میں نہ آئے؟ بات صرف اس سے ہی آس اور امید لگانے کی ہے کہ اس کے خزینے تو بھرے پڑے ہیں اس کے پاس کیا کسی چیز کی کمی ہے؟ سورہ یوسف میں للہ رب العزت فرماتے ہیں ولا تیاسوا مِن روحِ اللہِ ۖ اِنہ لا ییاس مِن روحِ اللہِ اِلا القوم الافِرون (سورہ یوسف 87) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اسکی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں، سوچئیے یہ ہماری کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ ہم مسلمان ہو کر بھی اس کی رحمت سے نا امید ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہ وظیفے یا عمل ان دعائوں سے بڑھ کر ہونگے۔ دراصل فیس بکی عاملین و فیس بک کے عملیات سے متعلقہ گروپس نے لمبے لمبے اعمال و وظائف دیکر لوگوں کا یقین انہیں پر کر دیا ہوا ہے کہ جتنا لمبا وظیفہ ہوگا شاید تبھی اثر کرے گا۔ میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ میں ان وظائف اور عملیات کا داعی نہیں ہوں نا ہی لوگوں سے اعمال کروانے کا شوقین۔ میں نماز حاجت کے نوافل اور دعا کرنے کو ہی کہتا ہوں۔ اس پر بھی میری ایک تفصیلی پوسٹ موجود ہے۔ یاد رکھئے کہ دعا اور نماز سے مدد مانگنے کا حکم للہ رب العزت نے خود دیا ہے( و قال ربم ادعونِی استجِب لم (سورہ کافر ون60) ترجمہ: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور دوسری جگہ فرمایا یایہا الذِین امنوا استعِینوا بِالصبرِ و الصلوِ اِن اللہ مع الصبِرِین(سورہ بقرہ 153) ترجمہ: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے اور اس پر عمل کر کے خود نبی اکرم صلی للہ علیہ والہ وسلم نے بتایا۔ جب بھی آپۖ کو کوئی مشکل آتی تھی تو آپۖ نماز کا سہارا لیتے تھے اور ہمیں بھی اسی بات کی ترغیب دی گئی ہے۔ دعا کی قبولیت سے متعلق نبی اکرم صلی للہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے اور یہ کہنے لگے : میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ مسلم کی روایت میں ہے: بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے، جب تک وہ کسی برائی اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ کرے۔ رسول اللہ ۖ سے پوچھا گیا کہ جلدی کرنے سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ۖ نے فرمایا: یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت مرتبہ دعا کی تھی، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ قبول ہوئی۔ اس پر وہ افسوس شروع کردے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔ متفق علیہ اب اس حوالہ جات اور اچھی تشریح کے بعد بھی لوگ نہ سمجھ پائیں تو میں انتہائی معذرت خواہ ہوں پھر میں نہیں سمجھا سکتا یا شائد عام عوام سمجھنا نہیں چاہتے بہر حال میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ عوام کو اشتہاری عاملوں کے چکر سے نکالوں ان کا راستہ بتادوں جس میں راہ کا انتخاب وہ خود کرلیں بس سادہ سی بات لکھنے کا مقصد یہ ہے بجائے اسم اعظم و تعویز اور مشکل ترین اعمال و ریاضات سے ہٹ کر کبھی خلوص دل سے دعا مانگ کرتو دیکھیں آپ حیرت میں پڑجائیں گے، اس دعا کے ساتھ اجازت دیجیئے کہ ا للہ رب العزت ہمیں ہدایت دیں اور دعا مانگنے اور اس کی قبولیت کے لئے اس سے بہتر گمان رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللھم آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سیدالکریم صلی للہ علیہ والہ وسلم۔
٭٭٭