پاکستان کا مستقبل!!!

0
20
جاوید رانا

قارئین کرام! امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت اپنے پیاروں کیساتھ ہونگے، وطن سے دُور رہتے ہوئے بھی مجھ سمیت پاکستانی وطن کی محبت میں مبتلا وطن کے حالات پر کڑھتے ہی رہتے ہیں کہ وقت کیساتھ پاکستان کا ہر شعبہ بہتری کے برعکس تنزلی اور بے سکونی کا شکار ہی نظر آتا ہے اور اس کے اثرات ملک اور عوام دونوں کیلئے ہی مضر ثابت ہو رہے ہیں بلکہ عالمی منظر نامے میں بھی پاکستان اور پاکستانیوں کی منفی تصویر کا سبب بن رہے ہیں۔ انقلابی شاعر حبیب جالب نے 50 برس قبل کہا تھا”یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اس دیس میں حاکم اندھے ہیں”۔ وطن عزیز کے ہر شعبہ پر نظر ڈالیں تو حبیب جالب کا متذکرہ شعر ایک واضح صداقت نظر آتا ہے۔ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے ارباب بست و کشاد اپنی سوچ، غرض اور مفادات کی دھند میں اپنے اقدامات و فیصلوں میں خرد کی بینائی سے محروم ہی ہیں اور اپنے فیصلوں میں ملک اور عوام کے مفادات کے برعکس اپنی خواہش و مفاد کے مطابق مقدم رکھتے ہیں۔ ریاست سے حکومت سیاست، تجارت، صنعت و کاروبار، معیشت حتیٰ کہ کھیل و ثقافت تک ہر شعبہ میں موجود حاکم اپنے مفاد کی عینک پہنے ہوئے اندھے ہیں۔ ہماری درج بالا تمہید محض خام خیالی ہی نہیں، وطن عزیز میں موجود سیاسی، انتظامی، آئینی، عدالتی و دیگر شعبوں میں دو رُخی و مفاداتی محرکات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے خدیجہ شاہ اور دیگر پی ٹی آئی کی خواتین پر ظلم و زیادتی اور MPO کے ذریعے گرفتاری پر مرثیہ تحریر کیا تھا۔ گزشتہ ہفتے اسی MPO کے تحت پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت کی گرفتاری پر وکلاء کے احتجاج و اتحادی دبائو پر ہائیکورٹ سے رہائی ہوگئی۔ کیا خدیجہ شاہ کی رہائی ہائیکورٹ کے اختیار میں نہیں ہو سکتی تھی۔ اسی کو دو رُخی کہا جاتا ہے یا مفاداتی رویہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مفاداتی روئیے اور مخاصمت تو اس وقت سیاسی، ریاستی، عدالتی حوالوں سے عروج پر نظر آرہے ہیں۔ سپریم کورٹ، ہائیکورٹس کے درمیان ذاتی، سیاسی اور واقعاتی اختلاف کُھل کر سامنے آرہے ہیں۔ ریاستی دبائو کے سبب نہ صرف عدالتی خلیج واضح ہے بلکہ عدالتی کارروائیاں اور فیصلے بھی اس کے تناظر میں ہو رہے ہیں۔ مفاداتی محرکات کی متعدد مثالیں موجودہ صورتحال میں پے درپے سامنے آرہی ہیں اور اس حقیقت کی عکاس ہیں کہ سارا کھیل محض ایک شخص یعنی عمران خان کی مخالفت میں اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کا ذاتی عناد اور عمران کو سیاسی و انتخابی منظر نامے سے خارج کرنے اور کئی مرتبہ کے آزمائے ہوئے نوازشریف کو اقتدار کی کٹھ پتلی کے طور پر لانا ہے۔
عمران اور پی ٹی آئی کیخلاف جو ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے اس کی تفصیل میں جانا وقت کا ضیاع ہی ہوگا۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ عمران مخالف یہ تماشہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک الیکشن کا ڈھونگ یا جھرلو مکمل نہیں ہوتا۔ ہر طرح کوشش کی جا رہی ہے کہ خان کو باہر رکھا جائے۔ ایک جانب کیسز میں اسے اُلجھایا جا رہا ہے تو دوسری جانب اکبر ایس بابر کے ذریعے الیکشن کمیشن سے انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد اور پی ٹی آئی کے انتخابی نشان پر کیس بنا کر جھٹکا دینے کے اقدام عمران اور اس کی پارٹی کو انتخابات سے باہر کئے جانے کا ایجنڈہ بروئے کار لانے کا مقصد ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز بیورو کریٹس کی جگہ عدلیہ سے لے جانے کے ایشوز پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس باقر نجفی کے فیصلے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور جسٹس سردار طارق کے ہائیکورٹ کے فیصلے کو اُڑا دینا (اس بینچ میں شمولیت سے جسٹس اعجاز الحسن نے بوجوہ معذت کی) اس امر کی نشاندہی ہے کہ نام نہاد الیکشن میں فیصلہ سازوں کی مرضی کے مطابق نتائج آئیں۔ عمران کو انتخابی مرحلے سے باہر رکھ کر الیکشن کیا شفاف، غیر جانبدار اور عوام کیلئے قابل قبول ہونگے۔ یہ ایک اہم سوال ہے؟
عمران پر تمام ظالمانہ اقدامات اور حربوں کے باوجود عمران خان کا گزشتہ ہفتے دنیا کا پہلا سیاسی ورچوئیل جلسے کا انعقاد، حکومتی نظام کی تمام تر کوششوں، سوشل میڈیا کی بندشوں کے باوجود لاکھوں پاکستانیوں کی شرکت اور دنیا بھر کے میڈیا کی کوریج عمران کے سیاسی استحکام اور عوامی مقبولیت کا بین ثبوت ہے۔ اب فیصلہ ساز اس کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح اپنے ہدف کی تکمیل کیلئے عمران کو انتخابی دوڑ میں نہ آنے دیا جائے، اس مقصد کیلئے بلوچستان اور کے پی سے الیکٹیبلز، سرداروں، قبائلی عمائدین اور با اثر لوگوں کو پیپلزپارٹی، آئی پی پی و دیگر پارٹیوں میں شامل کرایا جا رہا ہے، حد یہ کہ نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت کرا دی گئی ہے سوال یہ ہے کہ قوانین کے مطابق سرفراز بگٹی انتخاب لڑنے کا اہل ہوگا؟ ایک سینئر تجزیہ کار کے مطابق کیا عمران اور پی ٹی آئی کے بغیر ہونیوالے الیکشن غیر جانبدار و منصفانہ اور عوام کیلئے قابل قبول ہونگے یا پھر وطن عزیز میں فیصلہ سازوں کے ایجنڈے کی تکمیل خانہ جنگی اور مزید عدم استحکام کا سبب بنے گی۔ فیصلہ سازوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے، شفاف انتخابات 25 کروڑ عوام کی تقدیر اور خوشحال پاکستان کی ضمانت ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here