سوکر کے کھیل میں کھلاڑیوں کو ییلو کارڈ کا ملنا ایک عام بات ہے، لیکن جب ریڈ کارڈ مل جاتا ہے تو کھلاڑی کو منھ لٹکائے پیولین واپس جانا پڑتا ہے ، اور ٹیم ایک ناقابل تلافی نقصان اٹھاتی ہے. لیکن اِسے آپ کیا کہیںگے کہ ساؤتھ ایشین فٹ بال فیڈریشن چمپئن شِپ جو مالدیپ میں منعقد ہوا اُس کے ایک میچ میں بھارت کے کوچ کو ریفری نے ییلو اور اُس کے ساتھ ساتھ ریڈ کارڈ دکھاکر میدان سے باہر نکال دیا. بھارت کی ٹیم کیلئے یہ ایک نہایت توہین آمیز لمحہ تھا. عموما”ایک میچ میں چار یا پانچ کھلاڑیوں کو ییلو کارڈ ملتے ہیں ، اور دو یا تین کو ریڈ. لیکن تاریخی کرشمہ کہ 2006 ء کے سوکر کے ورلڈ کپ کے ایک میچ میں جو جرمنی کے شہر نیورمبرگ میں منعقد ہورہا تھاروسی ریفری نے کھلاڑیوں کو 4 ریڈ کارڈ اور 16 ییلوکارڈ دکھا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیاتھا، اور جس میچ کو ”دی بیٹل آف نیورمبرگ” سے موسوم کر دیا گیا ہے اور آج تک یاد کیا جاتا ہے.
ساؤتھ ایشین فٹ بال فیڈریشن چمپئن شِپ ہر سال کی طرح اِس سال بھی مالدیپ میں منعقد ہوا.
ٹیم کی تعداد زیادہ نہ تھی . علاقے کی ٹیموں میں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکااور مالدیپ کی ٹیموں نے بڑھ چڑھ کر شرکت کیں. بلاشبہ پاکستان کی ٹیم کی عدم موجودگی کو سارے لوگوں نے محسوس کیا. واضح رہے کہ پاکستان کی سوکر ٹیم کو فائیفا نے کسی بھی چمپئن شِپ میں حصہ لینے سے روک دیا ہے، اور پاکستان کے ارباب حل وعقد اِسے بھی ایک کھیل سمجھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں، جس کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کے سوکر کے ابھرتے ہوے عمدہ کھلاڑیوں کو ہورہا ہے جنہوں نے سوکر کو اپنا مستقبل بنایا تھااور آج وہ فائیفا کی پابندی کی وجہ کر بیروزگاری اور احتیاج کا شکار ہیں. پابندی عائد کرنے کی وجہ پاکستانیوں کی لاہور میں اُسکی عمارت کو قبضہ کرنے اور فائیفا کے نامزد ملازمین کو کام کرنے سے روکنے پر عمل میں آیا ہے. اگر وزیراعظم عمران خان اِس تنازع کو ختم کرانے کیلئے اپنا ایک گھنٹہ صرف کریں تو تمام مسائل انتہائی خوش اسلوبی سے حل ہو سکتے ہیں۔
بہرکیف ساؤتھ ایشین فٹ بال فیڈریشن چمپئن کا فائینل گذشتہ ہفتے کے دِن اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور بھارت کی ٹیم نے اپنی مخالف نیپال کی ٹیم کو 3 گول سے ہراکر یہ ثابت کردیا کہ کیوں فائیفا کی رینکنگ میں اُسکا نمبر 107 جبکہ نیپال 167 پرہے۔ آپ کی اطلاع کیلئے پاکستان کی فائیفا میں رینکنگ 198 ہے. نیپال کے خلاف بھارت کا پہلا گول وہاں کے مشہور کھلاڑی سنیل چھِترا نے کیا تھا. سنیل بھارت کے لیئنل میسی یا پرتگال کے کرسٹیانو رونالڈو ہیں . دنیا کے دوسرے ممالک کیا خود بھارت کے اسپورٹس کے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کی ٹیم میں سنیل چھتری نہ ہوتا تو اُسے سیمی فائنل میں ہی مالدیپ کی ٹیم میں شکست ہوجاتی. پہلے گول کے دومنٹ بعد ہی دوسرا گول سریش سنگھ نے کردیا. باقی رہی سہی کثر بھارت کی ٹیم کے مسلمان کھلاڑی سہل عبدالصمد نے تیسرا گول کر کے پوری کردی۔
ایک جانب ساؤتھ ایشین فٹ بال فیڈریشن چمپئن کی گرما گرمی اُس علاقے کے نوجوانوں میں سوکر کے کھیل کیلئے ایک نیا جوش وجذبہ پیدا کردیا ہے، تو دوسری جانب پاکستان اور بنگلہ دیش میں یہ بحث دھیمی آواز میں جاری ہیں کہ وہ دِن کب آئیگا جب اُن کا ملک بھی ورلڈ کپ جیتنے کا اہل ہوجائیگا۔ ایک اندازے کے مطابق اِس کی قیمت پانچ سے دس بلین ڈالر ہوگی۔
ادھر دنیا بھر میں قطر – 22 ورلڈ کپ میں مقابلہ کیلئے جنگ جاری ہے. یورپ میں جرمنی پہلا ملک ہے جس نے مد مقابل ملک کی ٹیم کو شکست دے کر اپنے مقام کو یقینی بنالیا ہے۔ جرمنی کے علاوہ امید ہے کہ ڈنمارک بھی ورلڈ کپ میں شامل ہوجائے، جبکہ انگلینڈ کو آئندہ ماہ تک انتظار کرنا پڑیگا۔
اٹلی جس نے چند ماہ قبل ہی یورو کپ کا تاج اپنے سر سجایا تھا چند ہفتے قبل اسپین کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگیا ۔اسپین کی ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں نے جس میں ایک 18 سالہ لڑکا بھی شامل تھا اٹلی کو شکست دینے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی۔ لیکن شومئی قسمت کے ایک ہفتے بعد ہی اسپین کو فرانس کے ہاتھوں شکست ہوگئی۔لہٰذا تازہ ترین صورتحال میں آئندہ سال ورلڈ کپ کو چومنے کیلئے فرانس کی ٹیم کا نمبر اول ترین ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ ورلڈ کپ میں اٹلی ، نیدرلینڈ اور امریکا ورلڈ کپ کے مقابلے میں مایوس کُن کارکردگی کی وجہ کر شرکت کرنے سے محروم رہ گئے تھے، جبکہ توقع ہے کہ آئندہ سال کے ورلڈ کپ میں دنیا کے 7 بڑے ممالک جن میں سوئیڈن ، یونان ، سربیا، چلی، امریکا، اور کروشیا شامل ہیں مقابلے سے قبل ہی میدان کے بجائے اسٹیڈیم میں تشریف فرما ہونگے۔ ورلڈکپ کے مقابلے میں شرکت کرنے کا مرحلہ انتہائی دشوار کُن بن گیا ہے، خصوصی طور پر اِس وقت جب تیسری دنیا کے ممالک کی نظریں اِس پر جمی ہوئی ہیں، اور ہر ملک جن میں مشرق وسطی کے ممالک سوکر کو اقتدار پر قابض رہنے کا ایک وسیلہ بنا لیا ہے۔
ماضی قریب میں سوکر کی دنیا کے شہرہ آفاق کھلاڑی محمد صالح جو لیورپول کے کلب کیلئے کھیلتے ہیں مانچسٹر سٹی کے ساتھ مقابلے میں ایک ایسا گول کیا تھا ، جس کے بارے میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ وہ نصف صدی کا سب سے بہترین گول تھا۔