دوشنبہ کا دن تھا اور12ربیع الائول کی تاریخ تھی کے بی بی آمنہ کے یہاں ولادت ہوئی۔
اس بچے کا نام ان کے دادا عبدالمطلب نے نہایت محبت اور پیار سے محمد رکھا۔
محمد کے معنی ہیں ہر لحاظ سے قابل تعریف وہ جیسے سب پسند کریں سب اچھا کہیں،لوگوں نے پوچھا آپ نے پوتے کا نام محمد رکھا خاندانی نام کیوں نہ رکھا،عبدالمطلب بولے
میں نے چاہا کہ آسمان پر بھی اس کی تعریف ہو اور زمین پر بھی خالق کو بھی وہ پیارا ہو اور خلقت کو بھی۔
یہ تھا ہمارے پیارے رسول کی ولادت کا دن حالانکہ والد محترم نہیں تھے مگر پھر بھی ہر طرف سے محبت ملی اور انتہائی پیار ومحبت سے اللہ کی طرف سے دادا کے دل میں ایسا نام ڈالا گیا جو ان کے شایان شان تھا۔حضورۖ کو پیغمبری کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے ہی ان کے بچپن سے ہر شخص پسند کرتا تھا۔وہ اپنے خاندان اپنے محلے اور تمام جاننے والوں میں اپنے اچھے اخلاق اور اچھی عادات کی وجہ سے بے حد پسند کیے جاتے۔
یہ اچھی عادات واخلاق کیا تھے۔اس زمانے میں جب اسلام نہیں آیا تھا۔برائی ہر طرف غالب تھی لوگ عیاش تھے۔جھوٹ بولتے تھے، بتوں کو پوجتے تھے۔آپۖ ہر طرح کی عیاشی سے دور تھے حالانکہ ایک امیر گھرانے کے فرد تھے۔کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا حالانکہ ان کے چچا تایا ہمیشہ ان کا ساتھ دینے کو تیار رہتے تھے کبھی جھوٹ نہیں بولاحالانکہ بچپن سے یتیم تھے۔دادا چچا اور عزیز رشتہ داروں کی ہمدردی پانے کے لیے بچے کیا نہیں کرتے۔آپۖ لوگوں کے بے انتہا اعتماد پانے والے وہ نوجوان تھے جن کو صادق وامین کے لقب سے پکارا گیا۔کسی بھی خاندان کسی بھی معزز گھرانے کا کوئی بھی نوجوان اتنے اچھے اخلاق کا مالک ہو تو خود بخود وہ لوگوں کے لیے مثالی انسان بن جاتا ہے اور ہر کوئی اس کی تعریف کرتا ہے۔حضرت خدیجہ اس زمانے کی ایک مالدار تجارت پیشہ عورت تھیں۔وہ بہت کامیاب سمارٹ خاتون تھیں۔ایک عورت تنہا ہو امیر ہو نیک ہو تو اس کو ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی دولت پر نظر نہ رکھے۔اس کی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو ایمانداری سے اور اپنی ذہانت ،سچائی اور متانت سے بڑھائے لالچی نہ ہو۔آپ کو حضورۖ میں ایسی تمام خصوصیات نظر آئیں اور انہوں نے آپ سے شادی کی خود خواہش کی صرف آپ کے اخلاق تھے جن سے وہ متاثر ہوئیں۔ہم جب بھی پیارے نبیۖ کی ولادت کا مہینہ خوشی سے مناتے ہیں۔ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ بتانا چاہئے کے اچھے اخلاق کیا ہیںاور ان پر چل کر ہی اصل کامیابی ملتی ہے۔اکثر نوجوان اپنی شان وشوکت اس چیزمیں سمجھتے ہیں کے وہ آج کل کے زمانے کے فیشن اپنا لیں۔بہت سمارٹ نظر آئیں بہت اچھی پر سنالٹی کے ساتھ اچھی باتیں کرکے دنیا کو متاثر کریں اچھی بیویاں اسی طرح حاصل کریں۔اچھا بزنس اسی طرح کریں دنیا کو متاثر کرنا آسان کام ہے مگر صرف زندگی کا مقصد لوگوں کو متاثر کرنا نہیں ہونا چاہئے۔نیک نیتی کے ساتھ اچھی متاثر کن شخصیت کے ساتھ رہنا ہی آپ کو ایک پرسکون زندگی عطا کرتا ہے۔
ایک مصنوعی تاثر بہت دیر تک کسی پر بھی اثر نہیں ڈالتا،آپۖ نے کسی کو کوئی مصنوعی تاثر نہیں دیا وہ صادق وامین تھے لوگ دور دور سے ان کے پاس روپیہ پیسہ رکھنے کے لیے آتے۔وہ خوش اخلاق تھے اور یہ خوش اخلاقی ہمیشہ قائم رہی وہ بڑے بڑے صبرآزما مراحل سے گزرے مگر کبھی یہ نہیں کہا کے پریشان کن صورت حال نے ان کا مزاج ہی بدل دیا۔کبھی بدمزاج نہ ہوئے،کبھی بیویوں کو شکایت کا موقعہ نہیں دیا،مستقل مزاجی بچپن سے تھی اور ہمیشہ قائم رہی۔
اگر پیارے نبیۖ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک نوجوان اس سے یہ سبق حاصل کرتا ہے کے آپ کی صاف ستھری عاداتت مستقل مزاجی اور تحمل مزاجی نے آپ کو دین ودنیا میں کامیاب کیا۔اس زمانے کے بڑے غصہ ور لوگوں نے آپ کی بات کو غور سے سنا۔حضرت خدیجہ نے آپ کو زندگی کا ساتھی بنایا۔جانی دشمن دوست بن گئے۔آپ کے اندر سچائی اور بہادری دونوں کا امتزاج تھاجس کا آج کل فقدان ہے۔
٭٭٭