آج جب یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو ایک شعر کی بازگشت بڑی شدت سے ذہن کے دریچوںمیں ابھر رہی ہے۔ لوگ بناتے گئے ہم بنتے گئے۔ کبھی عبرت کبھی تماشا، وجہ تسمیہ اس سہ حرفی کی وطن عزیز کی سیاسی صورتحال اور عوام الناس کی حالت زار ہے۔22کروڑ آبادی کے دنیا کے اس پانچویں ملک کے افراد کی بدترین صورتحال کی وجہ وہ سیاسی اشرافیہ ہے جو ان عوام کے ووٹوں اور حمایت کے بل پر اپنی سیاست اور کار مملکت و حکومت پر براجمان ہوتی ہے لیکن عوام کی فلاح و خوشحالی کے برعکس اپنے مقاصد کے حصول کے لئے حالات و معاملات کو اس نہج پر پہنچا دیتی ہے جہاں عوام گردش دوراں کی گہرائیوں میں مزید ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ یہ جفائوں، وفائوں کا تماشہ بلا تحصیص ہر دور کا تسلسل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ عوام بے چاروں کا حال یہ ہے کہ جس پہ تکیہ کرتے ہیں، وہی ان کے روز و شب کو مزید بے اماں کر دیتا ہے۔
ماضی کے سیاسی جفادریوں کی خود غرضی و مفاد پرستی کی چیرہ دستیوں سے تنگ آئے عوام نے 2018ء میں عمران کے مثبت و پرعزم نظریئے اور کھری و ایماندارانہ شخصیت کے پیش نظر اور ملک و قوم کی بہتری کے لئے تبدیلی کے تناظر میں انہیں اپنا نجات دہندہ قرار دے کر انہیں حق حکومت سے سرفراز کیا تھا۔ کپتان کی نیک نیتی اور طویل المنصوبے پروجیکٹ لانے کے باوجود عام آدمی تین برسوں بعد بھی خوشحالی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے تگ و دو میں مبتلا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ شکست خوردہ اور کرپٹ اپوزیشن عمران خان کے عوام بہبود کے لئے اقدامات میں بوجوہ روڑے اٹکا کر اپنے منفی ایجنڈے میں لگی ہوئی ہے لیکن دوسری جانب خود کپتان اور ان کے حکومتی وفادار، وزیر ، مشیر اور ترجمان بھی اپنے مثبت و عوامی مفاد کے اقدامات سے بھٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتے کے واقعات و معاملات پر نظر ڈالیں تو ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو بادی النظر میں غیر ضروری اور بے وقت کی راگنی نظر آتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ میں تقرریوں، تبدیلیوں میں التوائ، نیب آرڈنینس میں ترامیم، الیکشن کمیشن سے نزاعی معاملہ، پٹرول، بجلی گیس اور بنیادی اشیاء خصوصاً فوڈ باسکٹ میں بے تحاشہ اضافہ اور وپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں نچلی ترین سطح کی کمی اس کی چند مثالیں ہیں۔ ان تمام معاملات پر نظر ڈالیں تو خصوصاً فوج اور آئی ایس آئی کی تقرریاں اور تبادلہ کوئی ایسا ایشو نہیں تھا جسے بلاضرورت موخر کیا جاتا یا طوالت پیدا کی جاتی۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان مشاورت و اتفاق کے بعد آئی ایس پی آر کا پریسر جاری ہونے پر تبادلوں کے التوا پر سوشل میڈیا پر گند اچھالا جانا، پرنٹ و ویژوول میڈیا پر منفی تجزیئے و تبصرے اور سب سے بڑھ کر مریم نواز کی زہریلی و منافرانہ زبان، خاتون اول پر اشاراتی انداز میں رکیک حملے و طنز، نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں حکومت اور فوج میں ایک پیج پرہونے کا مضبوط تاثر زائل ہوتانظر آیا۔ اپوزیشن خصوصاً مریم، فضل الرحمن، بلاول وغیرہ نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ سونے پر سہاگہ حکومتی ترجمانوں کے ذو معنی اور مختلف بیانیوں نے شبہات کو تقویت دینے کا کام کیا۔ طرح طرح کے توھمات اور الزامات لگا کر عمران اور فوج کو باہم محاذآرا ہونے کا تاثر پیدا کرنے اور حکومت کے دن گنے جانے کے دعوے کئے جاتے رہے۔
صرف ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو بنیاد بنا کر سارا کھڑاک کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا تعلق نہ آئین کی کسی شق سے ہے نہ آرمی ایکٹ کے کسی قانونی کلاز سے ہے۔ آئین میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور تینوں افواج کے سربراہوں کا حوالہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری ضابطے اور کنونشن کے تحت ہے اور اس کا صوابدیدی اختیار وزیراعظم کو ہے جو آرمی چیف کی سفارش و تجویز پر کیا جاتا ہے۔ ماضی کے معاملات سے ہٹ کر اگر دیکھتے تو عمران خان کے دور وزارت عظمیٰ میں ہی جنرل عاصم اور فیض حمید اس عہدے پر فائز ہوئے لیکن کسی بھی قسم کی کوئی پس و پیش یا ابہام و تشویش کی صورت پیش نہ آئی تو پھر اس وقت یہ صورت کیوں پیش آئی۔ اگر بالفرض وزیراعظم کے کوئی تحفظات یا احساسات تھے تو معاملہ دونوں فریقین کے درمیان باہم طے ہو سکتا تھا۔ اس ایشو کا سوشل میڈیا و دیگر ذرائع تک پہنچنا بھی ایک سوال ہے کہ اس طرح کے امور گھر کے بھیدی کے بغیر افشاء نہیں ہو سکتے۔ اس سارے معاملے کا جائزہ لیں تو معاملہ سویلین برتری کے نقطہ نظر اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کا لگتا ہے کہ سمری کے بغیر پریس ریلیز کیوں جاری ہو گیا۔ کار ذمہ داری میں بہت سے موڑ ایسے آتے ہیں جہاں لچک دکھانی پڑتی ہے۔
ملک اور عوام اس وقت جس سیاسی خصوصاً معاشی صورتحال سے دو چار ہیں ، اس میں حکمران طبقے کو نہایت ذمہ داری ، متوازن بیانیے اور سمجھداری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی کے طوفان کے اثرات وطن عزیز کوبھی متاثر کررہے ہیں۔ ایک عام آدمی معیشت کی تباہ کاریوں، آئی ایم ایف کی شرائط اور زرمبادلہ و روپے کی قدر کو نہیں سمجھا کرتا ہے ، وہ تو یہ چاہتا ہے کہ ا سکے گھر کا چولہا جلے، دو وقت کی روٹی ملے اور وہ اپنا اور اپنے خاندان کے لئے زندگی آسان بنا سکے۔ ہم اپنے گزشتہ کالموں میں اس حوالے سے بہت کچھ عرض کر چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری آواز صدا بصحرا ہی رہی ہے۔ حکومت ماشاء اللہ تین سال مکمل کر چکی ہے اور وقت آگیا ہے کہ اگلے انتخابات کے لئے عوام دوست اقدامات اور عمل سے آئندہ کامیابی کی راہ ہموار کی جائے۔ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ شکست خوردہ حکمران ان کی فلاح کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن وہ ان سے مخلص نہیں مگر حالات اگر عوام کے حق میں بہتر نہ ہوئے تو سیاسی صورتحال میں تبدیلی بعید از قیاس نہیں۔ مخالفین مہنگائی کو بنیاد بنا کر محاذ آرائی پر کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ احتساب، پچھلی حکومتوں پر الزام تراشی ترک کرکے عوامی مفاد کے لئے عمل کیا جائے۔
بارے دنیا میں رہوغمزدہ یاشاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلویاںکے سدا یاد رہو
٭٭٭