غزہ، نقشہ پر رَاکھ کا ڈھیر !!!

0
75
کامل احمر

یہ کہنا کہ اسرائیل اور حماس جنگ کر رہے ہیں ایک مذاق ہے اور یہ بھی کہ اسرائیل کی اتنی بھرپور سکیورٹی ہوتے ہوئے حماس نے7اکتوبر2023کو اسرائیل کے اندر گھس کر حملہ کیا تھا اور پہلے750اور اب1500شہریوں کو مار ڈالا، جس کی کوئی ویڈیو شہادت نہیں یوں ہے کہ میڈیا نے کہا اور دنیا کو یقین آگیا۔ پچھلے پچاس سالوں میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے یا کرائے گئے جیسے سوچ رکھنے والے ایک من گھڑت اور خود سے بنایا ہوا ڈھکوسلا سمجھتے ہیں ان گنت باتیں ہیں اور امریکہ اُن سب سے میں شامل ہے اس لئے امریکہ بہادر کہلاتا ہے کوئی چیلنج کرنے والا نہیں کوئی روکنے والا نہیں جس کے ہاتھ میں بم میزائل میں اُسی کا راج ہے دوسرے ممالک تھوڑا بہت بولتے ہیں پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔ پہلے امریکہ پر اسرائیل کی لابی کا اتنا اثر نہیں تھا لیکن اب یہ لابی جیسےAIPAC کہا جاتا ہے امریکہ پر حاوی آ چکی ہے۔ کانگریس مین اورینیٹر خاموش ہیں سوائے تین چار کے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ آنے کے بعد اسرائیل کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ جو چاہے کریں مظالم ڈھائیں، حقہ پانی بند کریں کھانے پینے کی اشیاء کو غزہ میں نہ آنے دیں۔ صدر ٹرمپ کو پرواہ نہیں ایسا کرنے سے انسانی حقوق کی پامالی ہے امریکی قوم چیختی رہے وہ میلھ گلہار گاتے رئینگے۔ دنیا کچھ کہے کان بند کرلینگے۔ اس ہفتہ اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کرلیا۔ قبضہ تو7اکتوبر کے بعد کے ڈر سے کے ساتھ شروع ہوچکا تھا اور سمندر کے کنارے کئی زمین پر نتن یاہو اور صدر ٹرمپ کی رال ٹپک رہی تھی۔ دنیا سمجھتی تھی ایسا نہیں ہوگا۔ ایسا کرنے کے لئے ہمت کی ضرورت ہے بھول گئے تھے کہ ہمت کے ساتھ اسلحہ اور ڈالرز دونوں امریکہ فراہم کر رہا ہے کئی سیاست داں کھل کر بول رہے ہیں کہ امریکہ کی بیرونی پالیسی اور اندرونی پالیسی دونوںAIPACکے پاس ہیں۔ برنی بینڈرس جو ریاست مینMANEکے سینیٹر ہیں عرصہ سے کھل کر بول رہے ہیں لیکن صدر ٹرمپ اُن سے منہ ماری نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ الحان عمر، رشیدہ طالب اور اوکینہ یو کارنٹیز کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ صدر ہونے کے ناطے انہیں خاموش رہنا چاہئے۔ لگتا ہے صدر ٹرمپ کے پاس اندرونی مسائل کا حل نہیں اس ہفتے گیس کی قیمت میں فی گیلن30سینٹ کا اضافہ ہوا یہ نیویارک میں ہوا دوسری ریاستوں میں اس سے بھی زیادہ نیوجرسی کو چھوڑ کر اور فوکس نیوز کے مسخرے صحافیوں کا دعویٰ تھا گیس کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے صدر کے پاس اختیار نہیں کہ وہ بزنس والوں سے کچھ کہیں ایسا کہنا ہے ری پبلکن کا بار بار لکھ چکے ہیں صدر بائیڈین کے دور میں COVID 19کے جانے کے بعد سب ہی نے فائدہ اٹھایا۔ سب سے زیادہ لوٹ مار کار ڈیلرز نے کی اور جاری ہے ٹرک نما کاریں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں یہ سب قسطوں پر لی جاتی ہیں اور تین سال بعد ڈیلر کو واپس جاتی ہیں جسے بیچ کر وہ پہلے سے بھی زیادہ منافع بناتا ہے۔ گوشت(گائے) کی قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے کہ جلد ہی وہ مٹن کے گوشت کے برابر ہونگی۔ کھانے پینے کی ہر چیز مہنگی اور صدر ٹرمپ خاموش ایک سال ہوجائیگا ان نو ماہ میں انہوں نے کچھ ایسا نہیں کیا جس سے پتہ چلے تبدیلی آئی اورAMERICA GREAT ہوگیا جس کے 12.5فیصد شہری حکومت کی طرف سے دی گئی مالی امداد سے چل رہے ہیں۔SNAPکے تحت نیویارک ناسا اور شہر میں یہ شرح20 فیصد سے بھی زیادہ ہے ان میں کافی تعداد میں لوگ فراڈ بھی کر رہے ہیں۔ بزنس کرتے ہیں یوبر چلاتے ہیں اور انکم چھپاتے ہیں اور نیویارک تھرڈ ورلڈ ممالک سے آنے والوں کے لئےCASH COWبن چکا ہے۔
یہ تو تھی ملک کی اندرونی حالت جس پر سیاست دان پانی سیاست چمکا رہے ہیں۔ اسی ہفتہ، الجزیرہ کے بعد نیویارک ٹائمز نے غزہ کی تازہ صورت حال تصاویر کے ساتھ بتائیں کہ ویسے تو پورے غزہ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ نہ سڑکوں کا پتہ نہ گالیاں رہیں ایک بڑے ٹاور امشتیٰ ٹاورMVSHTAHA TOWER کو میزائل مار کر گرا دیا۔ کتنی جانیں گئیں کتنے زخمی ہوئے کچھ پتہ نہیں اسرائیل کا کہنا ہے اس نے آگاہ کردیا تھا کچھ دیر پہلے اس کے لئے شکریہ اس جلاد نتن یاہو کا یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ٹاور حماس اس عمارت کو اپنی ملٹری کارروائی کے لئے استعمال کرتا تھا۔ جب کہ حماس نے صاف انکار کیا ہے یہ بھی کہ گھروں سے محروم لوگ وہاں پناہ لئے ہوئے تھے۔ اسرائیل کے لگا تار حملوں اور بمباری نے غزہ کا نقشہ بگاڑ دیا ہے۔ کچھ جگہوں پر قحط کا عالم ہے یہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے جو کھانے پینے کی اشیاء وہاں پہنچانا چاہ رہے ہیں اور یہ14منزلہ عمارت کے گرنے سے غزہ راکھ اینٹ اور پتھروں کا ڈھیر بنا ہوا ہے اگر کوئی 5ستمبر کی تصویر دیکھے اسرائیل نے دھیرے دھیرے نہیں بلکہ ترتیب سے تیزی کے ساتھ شہروں کو مٹا دیا ہے تاکہ اسرائیل کی توسیع ہوسکے۔ کام جاری ہے ڈالرز امریکہ فراہم کرے گا اس عمارت کے اردگرد پناہ گزینوں کے ٹینٹ تھے اور اب صرف ٹینٹ ہی ٹینٹ ہیں کوئی بلڈنگ نہیں رہی۔ اور اب تمام بچے کچے فلسطینی ہاتھوں میں ڈونگے۔ ہانڈیاں، بالٹیاں لئے ہجوم کی شکل میں کھانا فراہم کرنے والوں کے اردگرد گھیرائو کرے چیخ رہے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ یا افسوسناک واقعہ ہے جہاں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں امریکی صدر انتظار میں ہیں کہ کب یہ گنے چنے لوگ ختم ہوں تو وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر حصّہ بانٹ کریں۔
جب تک صدر صاحب بیان بازی کرتے رہینگے اور دیکھتے رہینگے کہ روس، چین، انڈیا اور شمالی کوریا مل کر طاقت نہیںTARIFF بڑھانے میں لگے رہینگے جس کا فائدہ عوام کو نہیں بزنس والوں کو ہے۔ تو پھر کیوں بے وقت کی راگن، مہنگائی7.3ملین امریکن تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اگست کی بات ہے حقیقت یہ ہے کہ 41فیصد لوگ ادھار کھاتے میں کھانے پینے کی اشیاء لے رہے ہیں اور اوسطاً ایک امریکی 11,600ڈالرز کا مقروض ہے اور یہ قرض مہنگائی کے ساتھ بڑھتا رہے گا۔
اگر مقابلہ پاکستان سے کیا جائے تو وہاں قانون کے بغیر لوٹ مار ہے اور کورٹ کے ججز خاموش تماشائی ہیں جب کہ یہاں ہر چیز قانون کے تحت ہے بلیک مارکٹنگ جس کا دوسرا نام ہے کہ چیزیں دستیاب ہیں لیکن انڈے سے کار تک قیمت بیچنے والے کے پاس ہے۔ لینا ہے تو لو ورنہ راستہ ناپو لیکن کریڈٹ کارڈ کے ہوتے ہوئے کوئی راستہ نہیں ناپتا، اُسے مقروض ہونے کی پرواہ نہیں!۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here