قرآن و حدیث مشعل راہ نجات

0
110

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے اس بابرکت مہینے میں سرکار ختمی مرتبت کی آمد آپ سب کو مبارک ہو میں باقاعدہ سرکار کی شان میں ایک مقالہ لکھونگا جو آسان کام نہیں کیونکہ سرکار کی مدح بیان کرنا مجھ جیسا خاکسار کیا کرسکتا ہے۔
فی الحال اس ہفتے گزشتہ سے پیوستہ کچھ باتیں دین کی ہوجائیں جن کے حوالے مستند کتب سے لیئے جارہے ہیں امید ہے احباب کچھ وقت نکال کر مطالعہ کریں گے میں ہر کالم میں اس بات کی نشاندھی کررہا ہوں
ممبرس سے درخواست ہے گھنٹوں نیٹ پر اپنا وقت بیکار میں برباد کرنے کے ایک دس منٹ ایسی پوسٹس بھی پڑھا کریں۔اب میں ہفتہ وار ایک دو آیات مع ترجمہ اور تفسیر پر لکھونگا تو ہمارے علم و عمل میں کافی اضافہ ہوگا۔
امید ہے اس کاوش سے قارئین مستفید ضرور ہونگے اور دعائوں میں یاد فرمائیں گے
اللہ پاک ہم سب کو قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی ۖ۔
تفسیر سورة البقرہ
تفسیر: صراط الجنان
آیت,43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوةَ وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ(٣٤)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
تفسیر:صراط الجنان
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم رکھو۔ } اس سے پہلی آیات میں یہودیوں کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا،پھر انہیں حق کو باطل کے ساتھ ملانے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل چھپانے سے منع کیا گیا، اب ان کے سامنے وہ شرعی احکام بیان کئے جا رہے ہیں جو ایمان قبول کرنے کے بعد ان پر لازم ہیں، چنانچہ فرمایا گیا کہ اے یہودیو! تم ایمان قبول کر کے مسلمانوں کی طرح پانچ نمازیں ان کے حقوق اور شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جس طرح مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰة ادا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰة دو اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرو۔ (تفسیرکبیر، البقرة، تحت الآیة:٣٤، ١ / ٥٨٤، روح البیان، البقرة،تحت الآیة: ٣٤،١ / ١٢١، خازن، البقرة، تحت الآیة: ٢٤، ١ / ٩٤، ملتقطاً)

با جماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت اور فضائل:
اس آیت میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی ترغیب بھی ہے اور احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ”جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔
(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاة الجماعة،١ / ٢٣٢، الحدیث: ٥٤٦)

حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت حمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔”
(شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارة، ٣ / ٩، الحدیث: ٧٢٧٢)

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اور لوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جماعت سے نمازپڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔
(ابو داو?د، کتاب الصلاة، باب فیمن خرج یرید الصلاة فسبق بھا، ١ / ٤٣٢، الحدیث: ٤٦٥)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”منافقین پر سب سے زیادہ بھاری عشاء اور فجر کی نماز ہے اور وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماو?ں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاو?ں، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔
(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاة الجماعة۔۔۔ الخ، ص٧٢٣، الحدیث: ٢٥٢(١٥٦))

بزرگانِ دین کے نزدیک باجماعت نماز اداء کرنے کی اہمیت کس قدر تھی اس کا اندازہ ان دو حکایات سے لگایا جا سکتا ہے:

(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ”حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے ایک باغ کی طرف تشریف لے گئے، جب واپس ہوئے تو لوگ نمازِ عصر ادا کر چکے تھے، یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا? اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا اور ارشاد فرمایا:”میری عصر کی جماعت فوت ہو گئی ہے، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مساکین پر صدقہ ہے تاکہ یہ اس کام کا کفارہ ہو جائے۔
(الزواجرعن اقتراف الکبائر، باب صلاة الجماعة، الکبیرة الخامسةوالثمانون،١ / ١١٣)

(2)…حضرت حاتم اَصم رَحْمَةُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ”ایک مرتبہ میری با جماعت نماز فوت ہو گئی تو حضرت ابو اسحاق بخاری رَحْمَةُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ کسی نے میری تعزیت نہ کی اور اگر میرا بچہ فوت ہو جاتا تو دس ہزار (10,000) سے زیادہ افراد مجھ سے تعزیت کرتے کیونکہ لوگوں کے نزدیک دینی نقصان دنیوی نقصان سے کم تر ہے۔
(احیاء العلوم، کتاب اسرارالصلاة ومہماتھا، الباب الاول فی فضائل الصلاة والسجود۔۔۔ الخ، ١ / ٣٠٢)

اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اٰمین
والسلام
سید کاظم رضا نقوی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here