دو غریب الوطن عظیم شاعر!!!

0
258
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ممتاز ادبی شخصیت محبوب ظفر نے اپنے حالیہ امریکہ کے ادبی دورے میں دو پاکستانی عظیم شاعروں افتخار نسیم افتی اور عدیم ہاشمی کی قبروں کو تلاش کر کے ان پر فاتحہ خوانی کی۔ اِن دو شاعروں کی دیارِ غیر میں تدفین بڑا قومی المیہ ہے۔ ہماری نئی نسل اور نوجوانوں کی اکثریت ان کے نام اور کام سے نابلد ہے۔ سوچا اِن دو عظیم شاعروں کے بارے میں نہایت مختصر تعارفی نوٹ لکھوں جو میرے دوست بھی تھے۔ غالب کا دلدوز و دلگیر شعر یاد آ گیا!
مارا دیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بیکسی کی لاج
دونوں خلیق اور ملنسار انسان تھے۔ تبسم بر لب تھے۔ مخلص اور ذہین و فطین تھے۔
زندگی کی بے ثباتی بیقرار کرتی ہے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
محبوب ظفر نے فیس بک پر لکھا ہے کہ بڑی تگ و دو کے بعد امریکہ کے قبرستانوں میں دونوں کی قبریں ڈھونڈ کر فاتحہ خوانی کی۔ یہ ادب دوستی کی قابلِ صد ستائش مثال ہے، محبوب ظفر اپنی کسی تحریر میں یا فیس بک پر ان دونوں کی قبروں کا نمبر ، قبرستان کا اور شہر کا نام بھی لکھ دیں تاکہ جو احباب ان قبروں پر برائے فاتحہ جانا چاہیں تو انہیں ان کی قبروں کی تلاش میں دقت نہ ہو۔ مجھے نیویارک میں طویل قیام کے دوران میں اِن دونوں کی قبر پر فاتحہ خوانی کی حسرت ہی رہی کیونکہ ان کی قبور کہاں ہیں کوئی خبر نہ ملی۔ کلیم جلیسری کا شعر یاد آ گیا!
مری تلاش میں دقت کبھی نہیں ہوتی
وہ میرا گھر ہے جہاں روشنی نہیں ہوتی
افتخار نسیم اگست کو لائلپور میں پیدا ہوئے اور جولائی کو شکاگو امریکہ میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ انگریزی اور اردو کے شاعر تھے۔ افتخار نسیم نے سچ ہی کہا تھا!
کٹی ہے عمر کسی آبدوز کشتی میں
سفر تمام ہوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
چند سال قبل افتخار نسیم شکاگو سے نیو یارک تشریف لائے تو چند دوستوں نے جیکسن ہائٹس میں ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ خوب گپ شپ رہی اور شعر و شاعری کی مختصر محفل بھی جمی۔ وہ ہنس مکھ انسان تھے۔ ان کی غزل رومانس اور انقلاب کا حسین سنگم ہے۔ ان کی ایک غزل کے دو شعر ملاحظہ کیجئے!
سرکش ہیں اور اپنی حدوں سے بڑھے ہوئے
اتریں گے کب نہ جانے یہ دریا چڑھے ہوئے
سچ پوچھیے تو وجہ کوئی یاد بھی نہیں
اک عمر ہو گئی ہے کسی سے لڑے ہوئے
افتخار نسیم کے درجِ ذیل دو اشعار ان کی انقلابی فکر اور خودی و خود داری کے آیینہ دار ہیں- کہتے ہیں!
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کس کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں
جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھاسرِ بازار؟
جو کہہ رہا تھا کہ بِکنا ہمیں گوارا نہیں
یہ اشعار پاکستانی سیاست دانوں ، ضمیر فروشوں ، لوٹوں اور فصلی بٹیروں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں۔ رہا عدیم ہاشمی کا معاملہ تو وہ مکالماتی غزل میں بڑا نام ہے۔ وہ بھی اردو اور انگریزی میں شعر کہتے تھے – مکالماتی غزل میں ان کا کام لاجواب ہے اور وہ لاثانی ہیں۔ان کی اردو شاعری کا مجموعہ دریچ نگارش ہے۔وہ یکم اگست کو فیروز پور بھارت میں پیدا ہوئے اور نومبر میں شکاگو امریکہ میں دل کا دورہ پڑا اور وفات پائی۔
ان کی فرمائش پر میں نے بھی چند مکالماتی غزلیں لکھی تھیں جو راولپنڈی میں ان کی رہائش گاہ میں مشاعرہ میں پڑھی تھیں۔ ان کے یہ شعر تو اردو شاعری کے ماتھے کا واقعی جھومر ہیں
تیرے لیے چلے تھے ہم، تیرے لئے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے ، تو نے کہا تو مر گئے
وہ بھی غبارِ خواب تھا، ہم بھی غبارِ خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا، ہم بھی کہیں بکھر گئے
وہ مکالماتی غزل کے نامور شاعر تھے- انہوں نے مکالماتی غزل کو چار چاند لگا دیے۔ ان کی ایک مکالماتی غزل کے یہ اشعار سنیے اور سر دھنیے
اس نے کہا کہ ہم بھی خریدار ہو گئے
بِکنے کو سارے لوگ ہی تیار ہو گئے
اس نے کہا کہ ایک وفا دار چاہئیے
سارے جہاں کے لوگ وفا دار ہو گئے
اس نے کہا کہ کوئی گنہگار ہے یہاں
جو پارسا تھے وہ بھی گنہگار ہو گئے
افسوس صد افسوس ہمارے یہ موتی وطن سے دور دیارِغیر کی مٹی میں مدفون ہیں۔ بقولِ غالب
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
عدیم ہاشمی عارض دل میں مبتلا تھے۔ امریکہ میں اپنے بیٹے کے پاس بغرضِ علاج گئے لیکن وہیں کی خاک کا پیوند ہو گئے۔ میری یہ تجویز ہے کہ انگلستان کی طرح پاکستان کے شہروں میں شاعروں اور ادیبوں کے لیے ہر قبرستان میں گوش اہلِ قلم ( Writers Corner) بنایا جائے۔ جو اہلِ قلم بعض مجبوریوں کی وجہ سے ملک سے باہر مدفون ہیں ان کی مٹی کو پاکستان کی مٹی میں دفن کیا جائے اور تمام نامور اہلِ قلم کی یادگاروں کو محفوظ کیا جائے۔میری اردو ادب کے اساتذہ ، محققین اور نقادوں سے بھی التماس ہے کہ وہ اِن دونوں شاعروں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی کام کریں اور افتخار نسیم افتی کی جنم بھومی لاہلپور میں ایک شاہراہ کو ان کے نام سے منسوب کریں اور اسی طرح عدیم ہاشمی جو کہ راولپنڈی میں مقیم رہے ان کے نام پر راولپنڈی میں ایک شاہراہ کو منسوب کیا جائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here