سینئر صحافی ایاز امیر پر حملہ سوالیہ نشان؟

0
79
شمیم سیّد
شمیم سیّد

جو لوگ جانتے ہیں یہاں پر ہوا کچھ اور ہے لیکن سوال یہ ہے۔ڈیموکریٹک گورنمنٹ ہو یا نان ڈیموکریٹک گورنمنٹ ہو ایک آدمی اور اس کے گرد دو تین آدمی اور ہوں اس کی وجہ سے کوئی ذہن میں سوچ یا خلل ہو اور وہ دو تین انسان فیصلہ کرلیں کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ یہ کرنا ہے اور وہ پھر سارا کریوگراف کریں۔یہ جو آپ جس کا نام لے رہے ہیں رجیم چینج یہ شہبازشریف ،آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن نے نہیں کیا ہے یہ آلہ کار ہیں ان کو استعمال کیا گیا ہے یہ ویلنگ پارٹنر ہیں کرنے والے اور ہیں، پوچھنا یہ بنتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ان کے ذہن میں کیا خیال تھا کونسی ایسی ایمرجنسی آئی تھی کہ انہوں نے یہ کیا۔اب یہاں پر پاکستان کا ماحول کیسا ہے یہ جو ہم کہتے ہیں کہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہاتھ میں ہم نے تسبحیاں لہرائی ہوئی ہیں کبھی اس کی بات کرتے ہیں حالت ہماری یہ ہے کہ جو یہاں فیصلے کرنے والے ہوتے ہیں انکے ذہنوں میں یہ خیال آتے ہیں کہ یہ جو بیٹھا ہوا ہے، اس کا خیال ہے کہ فوج کا سربراہ فلاں کو بنانا ہے اور وہ بن جائیگا تو پھر یہ اس کی حکومت بنائیں گے جس سے سارا نظام تبدیل ہو جائیگا۔یہ ایک فاشسٹ حکومت بنانا چاہتے ہیں آپ سول سروس کے ٹاپ جو بیٹھے ہیں ان سے صرف یہ کہہ دیں کہ فاشت ازم کو کچھ لائنوں میں بتا دیں تو وہ نہیں بتا سکتے۔اس وجہ سے آپ پورا کھلواڑ کھڑا کر دیتے ہیں۔شہبازشریف، زرداری، مولانا فضل الرحمن یہ بعد کی چیزیں ہیں ان کو کرکے دے دیا ہم دیکھ رہے ہیں ان سے نہیں ہو رہا لیکن کاز وہ ہیں یہ نہیں ہیں۔لیکن اگر کاز ہے تو خان صاحب یہ سوال آپ پے بنتا ہے۔کہ یہ ایکٹیشن کا شوق کہاں سے پیدا ہوا ہم کسی فین کلب کے ممبر نہیں ہیں جوانی میں ضرور ممبر رہے ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایسا کپتان ہے ماجد خان کزن تھا اس کو ایسے نکال دیا کرکٹ ٹیم میں یہ کردیا ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ جب آپ آئینگے تو کم ازکم یہ پرنسپل تو ہوگا کہ 3 سالہ ٹینیور ہے تو3سالہ ہی رہیگا۔ہمیں یہ باتیں سننے کو آئیں کہ ان کیساتھ Comfartableہے۔
کوئی مسئلہ طے جاتا ہے سپریم کورٹ میں اس کے چیف جسٹس کہتے ہیں اس کا تو کوئی قانون ہی نہیں ہے۔یہی روایت برسوں سے چل رہی تھی گورنمنٹ کو اسٹینڈ لینا چاہئے تھا سپریم کورٹ مسئلہ پارلیمنٹ میں چلا گیا آج دکھڑے روئے جارہے ہیں۔یہ ہوگیا وہ ہو گیا آپ نے قانون بنا دیا۔نہیں نہیں 3سال نہیں اس میں3سال کی ایکیٹشن ہوسکتی ہے۔یہ قانون کا حصہ ہے اس کے بعد یہ کہا کہ کوئی اور مسئلہ ہو تواُسے ساتواں سال بھی دے سکتے ہیں۔اب تو جو بھی یہاں آئیگا اس کی نظریں6سال تو رہینگی۔لوگ آتے ہیں لیکن تمام باتوں کا انحصار صرف ایک ہی آدمی پر سکیورٹی، بلوچستان، سیاست کے معاملات بھی یہ بات نہ جانے کہاں تک پہنچی ہے۔کہلواڑ پاکستان میں اب ہوچکا ہے اور خان صاحب اس میں آپ بھی شامل ہیں۔ہمیں تو صرف یہ بتائیں کہ ایسا ہوتا کیوں ہے اب سب گھبرائے ہوئے ہیں ہر ایک کو پکڑ پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ بہت برا ہو رہا ہے۔خان صاحب کی زبان ٹھیک نہیں ہے آپ کے دور میں صرف ایک کام اچھا ہوا کہ آپ نے پاکستان کو پراپرٹی ڈیلرز کے حوالے کردیا تھا۔جب سے آپ کو دھکا لگا ماشاء اللہ آپ بھی بنے رہیں لیکن ان سے جان چھڑائیں جس طریقہ سے آپ نے پراپرٹی سیکٹر کو بڑھاوا دیا پاکستان کی آدھی زمین راولپنڈی کے بھائیوں نے کھا لی ہے۔پاکستان کی زمین کم پڑجائیگی۔ڈی ایچ اے کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔جو کچھ ہوا ہوگیا پرانے وقتوں پر رونے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ قدرت نے آپ کوموقع دیا ہے ،آپ نبض پر اُنگلیاں رکھیں، ڈونلڈ اور امریکہ سے باہر نکلیں اور دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔یہ وہ تقریر ہے جو سینیئر صحافی ایاز امیر نے سیمینار میں کی اور عمران خان بھی اس تقریب میں موجود تھے جبکہ ایاز امیر نے عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور عمران خان ان کی باتوں پر مسکراتے رہے لیکن جس طرح ان پر پچھلے جمعہ کو کچھ لوگو نے حملہ کیا اور انہیں ذدوکوب کیا وہ ہماری قوم پر ایک بدنما داغ ہے کیا اس ملک میں کوئی سچ بولنے کی ہمت نہیں کرسکتا جو بھی باتیں ایاز امیر صاحب نے اس سیمینار میں کیں انہوں نے حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اب یا تو ہماری افواج کو بدنام کرنے کیلئے یہ اقدام اٹھایا گیا ہماری افواج کو برا کہنا کسی طرح جائز نہیں ہے ہاں کچھ کالی بھیڑیں ہیں جنہوں نے ہماری فوج کو بدنام کردیا ہے ایاز امیر صاحب نے ٹھیک کہا کہ یہ جو چیف کو ایکیٹنشن دی جاتی ہے۔وہی جڑ ہے اس تمام باتوں کی ہم نے جب سے ہر معاملے میں فوج کو آگے کردیا ہے چاہے وہ سیاست ہو یا بیرونی ممالک سے تعلقات ہوں جب تک ہمارے چیف صاحب وہاں موجود نہ ہوں ڈیموکریٹک گورنمنٹ کچھ نہیں کرسکتی۔6سال ہر چیف نے اپنا حق سمجھ لیا ہے جبکہ تین سال بعد تبدیلی ضروری ہے جو بھی وزیراعظم آئے اسکو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی پسند سے اپنا چیف منتخب کرے اور6سال تک اسکو مزے کرنا دے۔اگر صحافت کو فروغ دینا ہے یا صحافتی اداروں کو صحافیوں کو سچ بات کہنے کی اجازت نہیں ہے تو تمام اداروں کو ختم کر دینا چاہئے اگر ہمارے جرنیلوں میں پاکستان سے زیادہ اپنا مفاد پیش نظر ہے تو پھر ان ہی کو اقتدار میں رہنا چاہئے ورنہ جو بھی اس حادثے کے پیچھے ہے اسکو قرار واقعی سزا دینی چاہئے تاکہ آئندہ ایسا واقعہ پیش نہ آسکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here