قارئین کرام! حج مبارک اور عید الاضحی کی مقدس و فرض کی ساعتیں الحمد اللہ تکمیل کو پہنچیں، ہماری جانب سے ساری امت مسلمہ خصوصاً حجاج کرام کو دین مبین کے اہم رکن اور سنت ابراہیمی کے حصول پر دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک اور رب تعالیٰ سے دعائے تقبل قبولیت پائے۔ آمین۔ خطبۂ حج میں امام کعبہ نے یوم عرفات کی عظمت و اہمیت پر اظہار کرتے ہوئے امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی پر زور دیا بالخصوص فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت و شہداء کے حوالے سے صہیونی اسرائیل اور اس کے سرپرستوں و معاونین کی بربادی کی دعائیں کیں۔ امام کعبہ کی یہ دعائیں ہر طور سے منصفانہ ہیں، گزشتہ کئی برسوں سے فلسطینی مسلمانوں پر نیتن یاہو کی بدطنیت مسلم دشمنی اور گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے اور امریکہ بہادر کی سپورٹ کے نتیجے میں غزہ و فلسطین پر جو قیامتیں ڈھائی گئیں ہیں، خوفناک تباہی و بربادی اور شہادتوں کا جو بازار گرم ہے اس کی تفصیل تو ساری دنیا کو ازبر ہے، بے حسی، انسانیت، تذلیل اور آزادی کی بدترین شکل عیدالاضحی پر بھی سامنے آئی۔ اسرائیل کی بمباری و حملوں سے شہادتوں کا سلسلہ تو جاری رہا، مظلوم فلسطینیوں کو نما زعید سے بھی محروم رکھنے کی شیطانیت جاری رہی۔ فلسطینیوں نے تباہ شدہ مساجد میں اینٹوں، ملبے پر نماز ادا کی، قبلۂ اول میں نماز کی ادائیگی شجر ممنوعہ بنا دی گئی تھی۔
افسوس کی بات ہے کہ اسرائیل کے ان کافرانہ و ظالمانہ اقدامات پر امن و انسانیت کے دعویدار امریکہ اور اس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل کے ان اقدامات کیخلاف کان پر جوں تک نہ رینگی۔ امن وامان، بین الملکی تنازعات کے خاتمے، حقوق انسانی مساوات و تعلقات اور معاہدات و تعلقات کے بظاہر دعویدار و نقیب ڈونلڈ ٹرمپ کا دو رُخی کردار اس صورت میں سامنے آرہا ہے کہ ایک جانب تو وہ روس و یوکرین کے تنازعہ پر، پاک بھارت صورتحال پر سیز فائر اور چین و روس سے مذاکرات کا ڈھونگ رچاتے ہیں تو دوسری جانب خود اپنے ہی ملک میں ایگزیکٹو آرڈرز، ICE ، اور دیگر طریقوں کے توسط سے حقوق انسانی کی تذلیل، فرد کی آزادی پر پابندی، تعلیم و تعلیمی اداروں کی راہ میں روڑے اٹکانے کیساتھ برسوں بلکہ عشروں سے رہنے والی نسلوں کو ملک بدر کرنے پر عمل پیرا ہیں۔ ٹرمپ کی ان پالیسیوں اور عملدراریوں کے جو اثرات سامنے آرہے ہیں وہ ہماری نظر میں یو ایس کی ترقی و خوشحالی اور اتحاد پر ہی نہیں خود ان کے حکومتی و سیاسی کردار کیلئے منفی نظر آتے ہیں۔
ٹرمپ کے بیرونی ممالک کی کشیدگی و متنازعہ امور میں کردار کے باوجود جو نتائج و اثرات سامنے آئے ہیں اس کے ہماری ان سطور کے تحریر کئے جانے تک، ٹرمپ کی پیوٹن سے 75 منٹ تک گفتگو کے باوجود یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ روس و یوکرین جنگ ہنوز جاری ہے اور روس کی افواج یوکرین کے دارالحکومت کے قریب Keiv شہر تک پہنچ چکی ہیں اور تباہیاں دستک دے رہی ہیں۔ تباہی اور کشیدگی کی لہریں تو اب خود گھر میں نظر آرہی ہیں۔ امریکہ کی سب سے بڑی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں ICE کی ہسپانک آبادی کے بے دخلی اقدام کیخلاف گزشتہ جمعہ سے ہونیوالے احتجاج پر ٹرمپ کے 200 نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے سبب امن و امان کی بدترین صورتحال کیساتھ سیاسی بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ ریاست کیلیفورنیا ڈیمو کریٹس ہے اور ICE کے حالیہ آپریشن اور ٹرمپ کے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے اقدام کے نتیجے میں سیاسی بحران شدید سطح پر پہنچ گیا ہے اور ٹرمپ کے موجودہ گورنر کو گرفتار کرنے کے ICE کو حکم نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ دوسری جانب گورنر کیلفیورنیا نے وہاں وفاق کیخلاف اختیارات سے تجاوز کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔سونے پر سوگہا کہ بدایمانی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے برعکس ٹرمپ نے وفاق کی اتھارٹی کے تنازعہ میں ریاستی مرضی کے بغیر مزید2ہزار نیشنل گارڈز اور700میرینز(فوجی) لاس اینجلس میں تعینات کردیئے۔ٹرمپ کا یہ اقدام مزید آگ بھڑکانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ ٹرمپ کے ان فیصلوں کے خلاف دیگر ڈیموکریٹ ریاستوں میں احتجاج شروع ہوچکے ہیں۔ سیاسی و قانونی تجزیہ کاروں نے اس صورتحال کو ریاستی انتشار و افتراق کا پیشہ خیمہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان جھگڑے اور ایک دوسرے کو دھمکیوں نیز بگ بیوٹی بل کی تحریک پر پریڈنسی کو خطرات کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ہمارا مطمع نظر یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اور مقتدر مملکت جہاں ہر مذہب، قومیت، تعصب سے بالا تر کمیونٹیز آزاد، خوشحال زندگی گزار رہی ہیں اور امریکہ کی انفرادیت مضبوطی و اجتماعیت کیلئے فعال ہیں، تارکین کے جواز پر ٹرمپ کی پالیسی سے کیوں وطن کو نقصان پہنچانے کے اسباب پیدا کئے جا رہے ہیں، برسوں بلکہ عشروں سے امریکہ میں مقیم لوگ جن کی اولادیں اور نسلیں بھی یہیں پیدا ہوئیں، پرورش پائی اور معاشرتی و معاشی خوشحالی ترقی کا حصہ ہیں انہیں ملک بدر کئے جانے کے پیچھے ٹرمپ کی کیا منطق ہے، خبر تو یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق قانونی تارکین کی ملک بدری کو درست قرار دیدیا گیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 5 لاکھ قانونی تارکین اس فیصلے سے متاثر ہونگے۔ ہمارا سوال یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے ایسے فیصلوں سے دیگر سیاسی و معاشرتی اور انتظامی قوتیں خاموش ہوں گی یا پھر امریکہ کسی بھونچال کی لپیٹ میں آجائے گا جو یقیناً دنیا کی مقتدر و مستحکم ترین مملکت کیلئے کسی بھی طرح مثبت نہیں ہو سکتا۔ اپنی کاروباری و خود ستائی فطرت سے کیا ٹرمپ ملک کو دائو پر لگانا چاہتا ہے یاپھر زوال اس کا مقدر بنے گا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
٭٭٭٭٭













