محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم ر ضا کا سلام پہنچے آج آپ کی خدمت علوم سیارگان کے وقت اور اس کی پیمائشیں دی جائیں گی اس کو محفوظ کرلیں کیونکہ زائچہ بناتے وقت آپ کو اس کی ضرورت پڑے گی ہوسکے تو اس کو زبانی یاد کرنے کی کوشش کریں تو آپ بہت جلد مشق کرکے ایک اچھے منجم ( علم نجوم کے عالم ) بن سکتے ہیں اور دیگر ٹی وی پر نظر آنے والے منجموں سے بھی زیادہ قابلیت ثابت کرسکتے ہیں شرط آپ کی لگن اور مشق اور محنت ہے تھوڑی توجہ فرمائیں آپ یہ کام کرسکتے ہیں ۔تمام علوم کی طرح علوم سیارگان ایک گہرا علم ہے جو مختلف مذاھب میں معاشروں میں رائج رہا ہے اور آج بھی ہے اس بابت چند ماہرین کی رائے کے ساتھ اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہیں ۔محسن نقوی صاحب کے مطابق تو اموی اورعباسی دور میں مختلف علوم کی کتابوں کے ترجمے ہوئے ان میں ہندی اور یونانی فلکیات و طب بھی تھے۔ اہل عرب میں بہت سے نظریات ان دونوں علوم کے رائج ہوگئے، بعض طبی نسخوں کو کار آمد بھی پایا گیا۔ باقر مجلسی کی کتاب السما والعالم اور نباتات کی فضیلت و خواص پر موجود روایات کامطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ باتیں “سائنسی حقیقتوں” کے طور پر نہیں بلکہ “دانش عہد” کے طور پر بتائی گئی ہیں یا منسوب کردی گئی ہیں۔ ایسی روایات کا چنداں اعتبار نہیں ہے۔حافظ ابوالخیر کا کہنا ہے! انسانی علوم اور نظام تعلیم پر جاہلیت کے اثرات ۔۔۔۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم ممالک میں فلسفہ، تاریخِ انسانی کی تعبیر، علم النفس، اخلاقیات، مذہبیات، مذاہب کا تقابلی مطالعہ، سماجی اور عمرانی علوم کا مجموعی رخ اور نصب العین قدیم اور جدید ، ہر دور میں ، اپنے جاہلی عقائد اور خرافات سے براہِ راست متاثر ہوتا آ رہا ہے ۔ بلکہ جاہلی معتقدات و خرافات پر ہی ان کی عمارت تعمیر ہوتی رہی ہے۔۔۔۔۔۔
ہی وجہ ہے کہ ان علوم میں سے بیشتر علوم “مسلم معاشروں” میں بھی اپنے بنیادی اصولوں میں مذہب سے متصادم ہیں اور مذہب کے تصور سے بالعموم اور اسلامی تصور سے بالخصوص کھلی یا چھپی عداوت رکھتے ہیں ۔جو نسل دنیا بھر اور مسلم ممالک میں تیار ہو رہی ہے وہ کھلے اور چھپے اسلام سے باغی ہے اور نام نہاد مسلم جماعتیں انہیں “اسلامی یونیفارم” پہنا کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسلام بھرپور پھیل رہا ہے۔۔۔۔انسانی فکر و علم کے یہ گوشے اس اہمیت کے حامل نہیں ہیں جو کیمسٹری، فزکس، فلکیات، حیاتیات اور طب وغیرہ کو حاصل ہے، بشرطیکہ موخر و الذکر علوم صرف عملی تجربات اور عملی نتائج کی حد تک رہیں، اور اس حد کو پھاند کر فلسفیانہ تاویلات و توجیہات (خواہ کسی صورت میں ہوں) تک تجاوز نہ کریں۔ جیسا کہ مثلا ڈارون ازم نے حیاتیات میں مشاہدات کے اسباب و ترتیب کا کام سرانجام دیتے دیتے اپنی جائز حد پھلانگ کر بلا کسی دلیل و حجت کے، بلکہ بلا کسی ضرورت کے، محض جذبات سے مغلوب ہو کر یہ نظریہ بھی پیش کر دیا کہ زندگی کے آغاز اور اس کے ارتقا کے لیے طبی دنیا سے بالاتر کسی قوت کا وجود فرض کرنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور بدقسمتی سے یہی نظریہ نومولود مسلم نسلوں کے ذھننوں میں بھی ٹھونسا جا رہا ہے۔
مسلمان کے پاس ان معاملات کے بارے میں اپنے پروردگار کی طرف سے ضروری اور اٹل معلومات پہنچ چکی ہیں، اور وہ اس درجہ اعلی و ارفع ہیں کہ ان کے مقابلے میں انسانی معلومات اور کاوش نہایت مضحکہ خیز اور ہیچ معلوم ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود انسان اس دائرے میں دخل اندازی کا مرتکب ہوتا ہے، جس کا تعلق براہ راست عقیدہ اور بندگی رب سے ہے۔
اب آپ واپس آئیے علوم سیارگان کی پیمائش کی طرف جسکی تشریح مندرجہ زیل ہے
درجات کا پیمانہ
ایک برج : درجے
ایک درجہ : دقیقہ
ایک دقیقہ : ثانیہ
اب اندازا یومیہ رفتاریں
شمس / دقیقہ فی گھنٹہ یا ایک درجہ یومیہ
قمر دقیقہ فی گھنٹہ یا درجہ یومیہ
عطارد / دقیقہ فی گھنٹہ یا دقیقہ یومیہ
زہرہ دقیقہ فی گھنٹہ یا دقیقہ یومیہ
مریخ قریبا دقیقہ گھنٹہ یا دقیقہ یومیہ
مشتری قریبا دقیقہ یومیہ
زحل قریبا دقیقہ یومیہ
یورنس قریبا دقیقہ یومیہ
نپ چون قریبا دقیقہ یومیہ
یہ رفتاریں کواکب کی سیدھا چلنے کی صورت میں ہیں رجعت میں رفتاروں میں فرق آجاتا ہے ۔ دو دنوں کی رفتاروں کے درمیان گھنٹے کا فرق معلوم کیا جائے تو وہ گھنٹے کی رفتار نکل آئیگی اسے اگر سے تقسیم کیا جائے تو ایک گھنٹہ کی رفتار نکل آئے گی ۔
کوء اچھی سی اٹلس خریدیں اٹلس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے نقشے میں وہ جگہ کس حصے میں تھی اسے طول بلد اور عرض بلد میں ناپا جاتا ہے ۔
مثلا زاھد نامی ایک شخص کراچی میں پیدا ہوا اب صوبہ سندھ کراچی کے نقشے میں تلاش کریں جو لکیریں طولا و عرضا کھینچی گء ہیں ان کو دیکھیں کہ بول میں کتنے درجے پر ہے اور عرض کتنے درجہ پر ہے کراچی کا طول بلد ، مشرقی اور عرض بلد ،شمالی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ گرینچ سے مشرق کی طرف ، درجہ اور خط استوا سے شمال کی طرف ، درجہ ہے اگر پیدائش ایک چھوٹے سے مقام کی ہے تو اپنے نزدیک کسی قصبہ یا شھر کا طول بلد اور عرض بلد لے سکتے ہیں ۔
تقویم سے کام لینا :-
کسی خاص سال مے زائچے کیلئے اس سال کی تقویم کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کواکب کی حرکات اور ان کے مقامات درج ہوتے ہیں بہترین تقویم میں ایک سال کیلئے کواکب کی روزانہ رفتاروں کی تفصیل ہوتی ہے منجموں کیلئے اور کچھ دیگر علوم روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ بہت مفید ہوتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کے دن کواکب کہاں کہاں تھے شمس، قمر ، عطارد ، زہرہ ، مریخ ، مشتری ، زحل ، یورنس،نپ چون ،اور پلوٹو کن بروج میں تھے اور کس کس درجہ پر تھے مستقیم تھے یا رجعت میں طلوع تھے یا غروب نیز ان کی اور حالتوں کا علم ہوگا لندن و امریکہ سے ایفا مریز شائع ہوتی ہیں وہ گرینچ کے مین ٹائم دوپہر کے وقت کی ہوتی ہیں اس سے کواکب کی رفتاریں لیں تو اپنے مقامی وقت میں ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے یا اپنے مطلوبہ وقت کے مطابق گرینچ وقت کو معلوم کرکے کام لیا جاتا ہے پاکستان میں فی الوقت زنجانی تقویم اس مقصد کے لحاظ سے معیاری ہے اور ضروریات پوری کرتی ہے میرا زنجانی صاحب سے تعارف تک نہیں نہ کوء تعلق ہے اس وجہ سے اس بات کو یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کی تقویم کی تشہیر کررہا ہوں یا میرا کوء اس میں لالچ یا مفاد ہے اگر چاہوں تو بے انتہا پیسہ ان علوم سے بنا سکتا ہوں لیکن عزت کی روزی کماتا ہوں محنت کرکے رات کی شفٹ میں کام کرتا ہوں تاکہ بچوں کو سو فیصد رزق حلال کھلا سکوں اور اللہ حلال رزق کی برکت سے زبان میں تاثیر اور قلیل عبادتوں کو قبول فرمائے ۔
اس کے ساتھ ہی آج کے موضوع کو یہاں روکا جاتا ہے آپ سے درخواست ہے تمام اہل ایمان کیلئے دعا کریں پردیسیوں کیلئے دعا کریں اور اس جان لیوا بیماری سے محفوظ رہنے کی دعا فرمائیں اللہ آپ کو اہل خانہ کو اپنی امان میں رکھے اور خوشیاں و آسانیاں عطا فرمائے ۔ آمین!
٭٭٭














