فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ سیّدنا امیرالمئومنین ابوعمروعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت اٹھارہ ذوالحجہ٣٥ہجری کو مدینہ منورہ شریف میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام لاکر مسلمانوں کی بہت زیادہ خدمت کی جب بھی اسلام کو آپ کی ضرورت پڑی آپ اعزاز سمجھ کر حاضر خدمت ہوگئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری زندگی نبی پاکۖ کی غلامی میں گزاری۔شرم وحیاء اور سخاوت کے پیکر تھے۔ نبی پاکۖ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ پہلے حضرت رقیہ رضی اللہ عنھا بنت رسول اللہۖ تھیں جبکہ ان کے وصال کے بعد دوسرے نمبر پر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا بنت رسول ۖ آپ کے نکاح میں تشریف لائیں۔ اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ ذوالنورین کہا جاتا ہے یعنی دو نوروں والا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ملا اعلیٰ کے فرشتے جب آپ رضی اللہ عنہ کا ذکرتے ہیں تو آپ کو ذوالنورین کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضورۖ نے ارشاد فرمایا ہے:عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سفارش سے ستر ہزار لوگ جنت میں جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر جہنمّ واجب ہوچکی ہو گی اب ان لوگوں کو بلاحساب جنت میں داخل کر دیا جائے گا(الصواعق المحرقہ) حضرت امّ المئومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ ایک دن حضورۖ گھر میں لیٹے ہوئے تھے اس حال میں کہ آبا کی پنڈلی مبارکہ ننگی تھی۔ دروازے پر دستک ہوئی پوچھا کون ہے؟ جواب آیا صدیق رضی اللہ عنہ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ حضورۖ نے اجازت دے دی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر تشریف لے آئے اور آپۖ سے کچھ گفتگو کی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے انہوں نے اجازت مانگی تو حضور علیہ السّلام نے انہیں بھی اجازت دے دی۔ اندر تشریف اور کچھ باتیں کیں اور بیٹھ رہے آپ کے بعد حضور عثمان غنی رضی اللہ عنہ آگئے۔ اجازت مانگی اجازت ملنے کا انتظار کیا۔ اتنے میں حضور پاک علیہ الصّلوٰة والسّلام اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنی پنڈلی کو ڈھانپ لیا اجازت ملنے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے۔ کچھ باتیں کیں اور بیٹھ رہے جب سب لوگ چلے گئے، امّ المئومنین رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ! کیا وجہ ہے کہ میرے ابا جان آئے اور آپ اسی حالت میں رہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے آپ نے حرکت نہ فرمائی لیکن جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور پنڈلی کا کپڑا بھی درست فرما لیا۔ تو آپ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں(مشکوٰة شریف)
ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سخت قحط پڑ گیا اور لوگ اکٹھے ہو کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور آپ کی خدمت میں غلہ کے کم ہونے کی شکایت کی۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا گھبرائو نہیں بفضلہ تعالیٰ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ شام سے پہلے یہ مشکل آسان فرما دے گا۔ جب شام کا وقت ہوا تو پتہ چلا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلے سے بھرے ہوئے ایک ہزار اونٹ شام سے واپس مدینے پہنچ چکے ہیں۔ یہ اطلاع ملتے ہی مدینہ منورہ کے تمام تاجر آپ کے گھر جمع ہوگئے اور آپ سے غلہ خریدنے کی بات کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا نفع دو گے؟ وہ کہنے لگے دوگنا نفع دیں گے فرمایا یہ تھوڑا ہے پھر انہوں نے کہا کہ پانچ گنا لے لو۔ آپ نے فرمایا یہ بھی تھوڑا ہے اور زیادہ کرو وہ کہنے لگے کہ مدینہ کے تاجر تو ہم ہیں ہم یہ زیادہ نفع آپ کو کون دے گا؟ آپ نے فرمایا جو کوئی دس گنا نفع دے گا میں یہ غلہ اسے دوں گا تاجروں نے اتنا نفع دینے سے انکار کردیا آپ نے فرمایا مجھے بارگاہ الٰہی سے ایک کے بدلے دس گنا نفع ملتا ہے یہ کہہ کر آپ نے سارا غلہ مدینہ منورہ کے غرباء میں تقسیم فرما دیا۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوبۖ کے علم غیب کا ظہور ہوا کیونکہ آپ ۖ نے آپ کو غنی کا لقب عطا فرمایا تھا آپ نے غناء کی انتہا کردی حالانکہ ایسے مواقع پر تو تاجر کماتے ہیں اور اپنی کمی دور کرتے ہیں لیکن قربان جائیں آپ کی سخاوت پر کہ آپ نے دنیا کو بالکل ترجیح نہیں دی بلکہ سارے کا سارا مال اللہ کی راہ نے خرچ کرکے تاجروں کو اچھی اور عمدہ سورج عطا فرمائی ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا تو آپ ۖ نے حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لئے دعا مانگی”اے اللہ! میں عثمان سے راضی ہو لہذا تو بھی اس سے راضی ہو جا(الریاض النضرہ) آپ ۖ کی دعا سے معلوم ہوا کہ آپ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر راضی ہیں اور خدا تعالیٰ بھی آپ پر راضی ہے اس کے باوجود اگر کوئی ایرا غیرانتھو خیرا اور ظاہر وباطن سے سیاہ حالت والا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوتا ہے تو جائے جہنم میں عظمت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے اس سے نہ کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ پڑے گا۔آپ سے راضی رہنے والے خوش نصیب ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے اور آپ کے فیوض وبرکات سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭











