لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے !!!

0
20

تیرہ اپریل کا ہولناک دن تاریخ میں سانحہ جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کی نسبت سے برِ صغیر پاک و ہند کی جدوجہد آزادی کی تحریک میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن، جنرل ڈائر کے احکامات کی پیروی میں، برطانوی فوجیوں نے، احتجاج کرنے والے سینکڑوں نہتے افراد پر گولیاں برسا دیں تھیں۔ ریاستی طاقت کے اس بے جا استعمال پر عوام میں اتنا شدید ردِعمل تھا کہ جولائی میں، برطانوی ایوانِ نمائندگان نے، جنرل ڈائر کو ریٹائر کرکے منظرِ عام سے ہٹا دیا تھا۔
ان اقدامات کے باوجود ہندوستانیوں میں انتقام کا جذبہ برقرار رہا۔ ایک کمیشن نے واقعے کی تحقیقات بھی جاری رکھی مگر پھر بھی تیرہ مارچ کو لندن کے کنگسٹن ہال میں ادھم سنگھ نے گورنر مائیکل او ڈوائیر کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ اودھم سنگھ، امرتسر والے واقعے کا عینی شاہد تھا اور اس روز گولی لگنے سے زخمی بھی ہوا تھا۔ مائیکل او ڈوائیر سانحہ جلیانوالہ باغ کے وقت پنجاب کا برطانوی لیفٹیننٹ گورنر تھا اور اس نے نہ صرف جنرل ڈائر کی حمایت کی تھی بلکہ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ اصل منصوبہ اسی کا بنایا ہوا تھا۔سانحہ مشرقی پاکستان کے تین مرکزی کردار مجیب، بھٹو اور اندرا گاندھی بھی یکے بعد دیگرے قتل ہوئے۔ یحیٰ خان نے بھی اپنی باقی زندگی، بے بسی اور گمنامی میں گزاری۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ چاہے سقوطِ ڈھاکہ ہو یا سانحہ اسلام آباد، ریاستی طاقت کے بے جا استعمال کرنے والے ظالموں کے خلاف عوامی نفرت، اپنا انتقام لئے بغیر کبھی کم نہیں ہوتی ۔ حسیب سوز نے کیا خوب سوال کیاہے کہ!
یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے کیا ہے ؟
یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے
پاکستان کی مقتدرہ، آجکل سانحہ اسلام آباد سے جان چھڑانے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں۔ نہتے عوام، شجر کے ہوتے ہوئے بھی، دھوپ میں نکل آئے ہیں تو اس کی یقینا کوئی وجہ رہی ہوگی۔ وہ آئے تو احتجاج کی غرض سے تھے لیکن انتقام کی آگ اپنے سینوں میں لے کر واپس گئے ہیں۔ اس سانحہ کی مناسب تحقیقات ہونا ضروری ہیں، اگرچہ امیر قزلباش کی زبان میں عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ!
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
سوشل میڈیا کے سارے پلیٹ فارمز، آجکل اِن دو سوالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ گولی کس نے چلائی؟ اور گولی کیوں چلائی؟ ان دو سوالوں کے جتنے صحیح اور بر وقت جوابات عوام کو حاصل ہوں گے، حالات میں بہتری بھی اتنی جلد آجائے گی ورنہ فیض احمد فیض کے ان الفاظ میں یہ شکایت مزید بڑھے گی کہ
فیض ان کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنہیں
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام
اسی طرح منیر نیازی کا یہ شکوہ بھی مزید تقویت حاصل کر لے گا کہ!
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
الجزیرہ، بی بی سی، سی این این اور دیگر ٹی وی چینلز پر سانحہ اسلام آباد کی کوریج دیکھ کر دل بہت افسردہ ہوتا ہے۔ اسی طرح امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ کے ایوانوں میں اپنے آبائی وطن پر کی جانے والی منفی بحثیں دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی مقتدرہ پتہ نہیں کس الجھن کا شکار ہے کہ وہ ہمارے اچھے خاصے ملک کو گھٹنوں پر لے آئی ہے۔ کیا ذاتی مفادات، اتنے اہم بھی ہو سکتے ہیں کہ کروڑ نفوس کی ایٹمی ریاست، کوڑی کوڑی کی محتاج ہو جائے اور اپنی نہتی عوام پر اس طرح گولیاں چلائے کہ جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام یاد آ جائے؟ قتیل شفائی نے شاید انہی حالات کیلئے کہا تھا کہ
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
یہ بغاوت اب صاف اور واضح طور پر نظر آرہی ہے بہتر یہی ہے کہ عوام کی رائے کا مکمل احترام کرتے ہوئے، جائز طریقے سے منتخب نمائندوں کو اسمبلیوں میں بٹھایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ ان کی نا اہلیت جلد ہی سامنے آجائے اور موجودہ مقتدرہ کو دوبارہ حکمرانی کا جائر موقع مل جائے۔ کم از کم اس طریقے سے ہماری ریاست بچ جائے گی اور سیاسی استحکام بھی آجائے گا۔ آخر میں پروین شاکر کی یہ مشہورِ زمانہ غزل کے کچھ اشعار حاضرِ خدمت ہیں۔
پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے
کر رہا ہے میری فرد جرم کو تحریر کون
آج دروازوں پہ دستک جانی پہچانی سی ہے
آج میرے نام لاتا ہے مری تعزیر کون
کوئی مقتل کو گیا تھا مدتوں پہلے مگر
ہے در خیمہ پہ اب تک صورت تصویر کون
میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون
سچ جہاں پابستہ ملزم کے کٹہرے میں ملے
اس عدالت میں سنے گا عدل کی تفسیر کون
سارے رشتے ہجرتوں میں ساتھ دیتے ہیں تو پھر
شہر سے جاتے ہوئے ہوتا ہے دامن گیر کون
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here