نور ہدایت!!!

0
79

محترم قارئین! حضرت امیرالمومنین، خلیفہ المسلمین، داماد رسول، حیاء کی کان، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ہوئے۔تقریباً بارہ سال خلافت پر مامور رہے ،اختلاف روایت ہے لیکن زیادہ تر یہی ہے کہ آپ کی شہادت اٹھارہ ذوالحجہ35ھ کو ہوئی۔مدینہ شریف میں جنت البقیع میں آپ کا مزار پر انوار زیارت گاہ خاص وعام ہے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے وصال سے قبل مدینہ منورہ کے اکابر صحابہ کرام علیھم الرضوان سے مشورہ کرکے اس امرکا اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ ان کی وفات کے بعد اُمت مسلمہ کی امامت وقیادت اور حضرت رسول اکرمۖ کی نیابت وخلافت کی ذمہ داریاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے کندھوں پر اُٹھائیں گے۔خلیفہ اول کی وفات کے بعد ساری اُمت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے انہیں اپنا ”امیرالمئومنین بنا لیا اور اس حسن انتخاب کے خلاف ایک آواز بھی بلند نہ ہوئی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب زخمی ہونے کی حالت میں اس امر کا یقین ہوگیا کہ وہ جانبر نہ ہوسکیں گے تو انہیں مل کے مستقبل کے متعلق فکر لاحق ہوئی۔لیکن وہ خلیفہ اول کی طرح کسی ایک شخصیت کے متعلق اکابر ملت کو وصیت نہ کرسکے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے یہ منصب بلند سنبھالنے کے لئے کہا لیکن انہوں نے معذرت پیش کردی۔اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ وصیت کی کہ میری وفات کے بعد ذمہ داری کا یہ منصب چھ اکابرین امت میں سے ایک کے سپرد کردینا وہ چھ اکابریہ تھے(1)عبدالرحمان بن عوف(2)عثمان بن عفان(3)علی بن ابی طالب(4)سعد بن ابی وقاص(5)زبیر(6)طلحہ رضی اللہ عنھم
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت مقدر رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی کو اس کام پر مامور کر دیا تھا۔فرمایا کہ وہ ان اکابر کو ایک جگہ جمع کریں اور انہیں اس وقت تک پیام گاہ سے نہ جانے نہ دیں جب تک کہ کسی ایک کو امیر ملت اور مسلمانوں کا خلیفہ مقرر نہ کرلیں۔حضرت عبداللہ بن عمر کو بھی مجلس مشاورت میں شامل ہونے کے لئے کہا گیا تھا۔لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شرط لگا دی کہ وہ خود خلیفہ بننے کے امیدوار نہ ہوں گے اور انہیں وصیت فرما دی تھی کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ ووٹ دیں۔یعنی جو اس کی رائے ہو اس رائے کی تائید کریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے اگلے دن مقدار رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نامزد کردہ اکابر ملت کو بیت المال میں جمع کیا جو ام المئومنین رضی اللہ عنھا یعنی عائشہ صدیقہ کے حجرہ کے قریب تھا۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ پچاس آدمیوں کی ایک جمعیت کے ساتھ بیت المال کے باہر پہرہ دینے لگے۔دو دن بحث ہوتی رہی اور مجلس مشاورت کسی فیصلہ پر نہ پہنچی۔تیسری رات حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نہیں سوئے اور لوگوں سے مل کر رائے عامہ کا رحجان دریافت کرتے رہے تیسرے دن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے چیلنج دے دیا کہ آج ضرور فیصلہ ہونا چاہئے۔مجلس مشاورت کے ارکان نے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو حکم مان لیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس شرط پر آپ کو حکم مانتا ہوں کہ آپ بلا رو رعایت کتاب وسنت کے مطابق فیصلہ صادر کردیں گے۔آراء میں اختلاف ہوتا رہا بات چیت جاری رہی، ہر کو اپنی اپنی رائے پیش کرتا رہا ،حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اس دن کے اجلاس میں شامل نہ ہوئے۔حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے اسی دن مسجد نبوی شریف میں مدینہ شریف کے عام لوگوں کو جمع کیا اور تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے آج حکم ہونے کی حیثیت میں فیصلہ کرنا ہے کہ کس شخص کو مسلمانوں کا امیر بنایا جائے۔حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حاکم فوجی سالار اور سردار اس اجتماع سے باہر چلے جائیں تاکہ عام لوگوں کی رائے دریافت کی جاسکے۔وہ لوگ باہر چلے گئے تو عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے عام لوگوں کو اظہار رائے کے لئے کہا:
پھر اختلاف رائے ہوئی، اس طرح کہ حضرت عمار بن یاسر اور حضرت مقدار رضی اللہ عنھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کے خواہاں تھے جبکہ حضرت ابو سرح اور ابوربیعہ رضی اللہ عنھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا۔قبائلی عصیبت اور خاندانی طرف داری کا یہ پہلا مظاہرہ تھا جو مسلمانوں کی ملت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عوامی طور پر ظاہر ہوا۔جو بعد میں انہائی شدت اختیار کرکے امت مسلمہ میں طرح طرح کے فتنے پیدا کرنے کا موجب بنا۔حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھا کے ادوار میں اگر کچھ اس قسم کے لوگ اس قسم کے احساسات اور خیالات رکھتے بھی تھے تو انہیں کھلے طور پر اپنے ایسے خیالات کے اظہار کی جرات نہ ہوتی تھی حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خاموش کروایا اور پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر میں آپ کو مسلمانوں کا امیر مقدر کردوں تو کیا آپ قرآن وسنت رسول اور شیخین کے مسلک پر چلیں گے آپ نے جواب دیا کہ اگر مجھے امیر بنایا جائے تو میں اپنی علمی استعداد اور علمی صلاحیت کے مطابق چلوں گا لیکن شیخین رضی اللہ عنھا یعنی ابوبکر اور عمر کے مسلک کا قرآن واحادیث کے مطابق پابند رہوں گا۔اس کے بعد حضرت عبدالرحمان نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں قرآن اور سنتت رسولۖ اور مسلک شیخین رضی اللہ عنھا کی پوری پوری پابندی کروں گا۔تو حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بیعت کی اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تمام مسلمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بارہ سال کا طویل عرصہ خلافت کے امور کو بخوبی چلایا، اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭اا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here