منہ زور!!!

0
105
عامر بیگ

سوویت یونین کی تو بات ہی چھوڑیں کہ وہ دنیا کی سپر طاقت رہا ہے، ترکی اور میانمار میں تو ان لوگوں کا اتنا ہولڈ تھا کہ اگر کسی کے ہاں نیا ٹی وی بھی آجاتا تو فوجی وہاں پہنچ کر تفتیش کر رہے ہوتے کہ یہ تبدیلی کہاں سے اور کیسے آئی۔ ترکی میں واشنگ مشین تک فوجی بناتے تھے یا انکے انڈر بنتی تھی، میانمار میں آن سان سوچی کے آنے پر حالت بدلی تھی مگر یہ لوگ پھر آگئے اور عوام کی حالت دوبارہ اسی نہج پر پہنچ گئی ہے مگر ترکی کے اردوان نے مرحلہ وار اس پر قابو پایا اور عوام نے انکا ساتھ دیا، نواز شریف نے ترکی ماڈل فالو کرنے کی کوشش کی مگر آن سان سوچی بن کر پہلے جیل پھر لندن پدھار لیے ،عمران خان دو ہزار تیرہ میں حکومت نہ ملنے کی وجہ سے کچھ زیادہ جلدی میں تھے۔ سیاست میں پانچ چھ سال کی تاخیر کوئی بڑی تاخیر نہیں گنی جاتی۔ انہیں اٹھارہ کے انتخابات میں اکثریت ملی مگر وہ کافی نہیں تھی انہیں چاہئے تھا کہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے جو انہوں نے رکھے مگر اسٹیبلشمنٹ بھانپ گئی کہ اگر یہ بندہ مزید ٹک گیا تو پھر ہم سب کی چھٹی ہو جانے والی ہے۔ نواز شریف نے بھی یہی غلطی کی تھی ،پانچ ایٹمی دھماکوں کے بعد اس میں بلا کی خوداعتمادی دیکھنے میں آئی۔ فوج کو بیرکوں سے نکال کر سڑکیں بنانے ،بھل صفائی، میٹر ریڈنگ اور گھوسٹ سکول ڈھونڈنے میں لگا دیا سمجھے کہ اب جب کہ ملکی دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا ہے تو پھر ہاتھی پالنے کی کیا ضرورت اسٹیبلشمنٹ والے بھی چونک گئے کہ اب ہماری اہمیت وہ نہیں رہی وہ تو بھلا ہو امریکی خارجہ سیکریٹری رچرڈ ارمٹیج کا کہ جس نے سٹون ایج میں بھیجنے کی دھمکی دیکر ان کی اہمیت بڑھا دی ۔پاکستان ایک ایسی جیو سٹریٹیجکل پوزیشن پر واقع ہے کہ اس کی اہمیت سے انکار کیا ہی نہیں جا سکتا ،انڈیا نے کشمیر پر غیر قانونی شب خون مار کر پاکستان کو اپنی روایتی دفاعی طاقت بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے ۔سیاہ چن اور افغان بارڈر پر طالبان کی کاروائیوں کی وجہ سے بھی وہاں افواج رکھنا ازحد ضروری ہیں ،ایران بارڈر پر سکون ہے مگر وہاں سے سمگلنگ اور کلبھوشن کی آمد اور دنیا کی نظریں ہمارے بلوچستان میں زیر زمین چھپے خزانوں پر اور گوادر میں سی پیک پر جیکٹس کے لیے افواج پاکستان ہی ہیں جو دفاع پاکستان کو لاحق بیرونی خدشات سے نمٹنے کے لیے ممکنہ ضروریات مہیا کرتی ہیں ،اس مقصد کیلیے انہیں فنڈز مہیا کرنا حکومت وقت کی ضرورت ہے اور اسی ضرورت کو پیہم برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی پنگے بازی کرنا پڑتی ہے ،عمران خان کو اس کی اہمیت کا احساس تھا اور ہے یہی وجہ ہے کہ وہ نکالے جانے کے بعد نواز شریف کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا نہیں ہوا اور اگر موقع آیا بھی تو دھرنے کو کال آف کر دیا گیا اب وہ عوامی طاقت سے اس کا حل نکالنے کے سر پر ہے پر یہ بات تو طے ہے جب تک کشمیر کا منصفانہ فیصلہ نہیں ہو جاتا، بھٹو کیا عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کے منہ زور گھوڑے کو لگام نہیں دے سکے گا۔
عامر بیگ نیو جرسی
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here