مسجد، مدرسہ اور دربار !!!

0
24

صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملال کی شریعت میں فقط مستی گفتار
شاعر کی نورمردہ وافسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست نہ خوابہدہ نہ بیدار
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ وپے میں فقط مستی، کردار
معزز قارئین کرام! آپ بخوبی یہ بات جانتے ہیں دین اسلام میں قرآن کریم آخری اتھارٹی ہے۔ قرآن ہدایت بھی ہے نور بھی ہے رحمت بھی ہے اور شفا بھی کوئی خشک تر چیز ایسی نہیں جسکا اس قرآن میں بیان نہ ہو ہمارے ہر غم کی دوا قرآن کریم میں موجود ہے ہمارے ہر دُکھ کا مداوا قرآن کرسکتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے اپنا دامن کشکول صدق واخلاص کے جذبے سے سرشار ہو کر قرآن کی بارگاہ میں پھیلایا جائے آیئے اس صحیفہء رحمت سے کچھ رحمتیں سمیٹنے کی کوشش کریں۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر104میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے اور تم میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چا ہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں۔ اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔ تاریخ اسلامی کا ایک اجمالی جائزہ لیجیئے امربالمعروف اور نعی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے آپکو تین مراکز نظر آتے ہیں ایک مسجد دوسرا مدرسہ اور تیسرا صوفیاء کرام کی خانقا ہیں صد افسوس آج ان تینوں جگہوں سے ایک موثر اور مثبت دعوت کا کام اگر ختم نہیں ہوا تو کمزور ضرور ہوگیا ہے ہمارا کہنا ہے کہ اگر آج تین جگہوں کو عین قرآن وسنت کی تابع کردیا جائے پوری قوم کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ چونکہ تفصیل کی گنجائش ہیں ہم ارشارات پر اکتضاد کریں گے جہاں تک مسجد کا تعلق ہے تو مساجد شعائر اسلام میں سے ہیں جو اللہ کی رضا کیلئے مسجد بنائے اللہ اس کیلئے جنت میں بیت الحمد بنا دیتا ہے۔ اگر مسجد کو ان بیان کردہ اصولوں کے تحت چلایا جائے تو معاشرے کا نقشہ دنوں میں تبدیل ہو۔
٭ سرکاری سطح پر مساجد کو سہولیات فراہم کی جائیں۔
٭ مسجد کی انتظامیہ میں کوئی بھی نااہل اور جاہل شخص کسی عہدے پر نہیں ہوگا۔
٭ مسجد کا امام وخطیب کسی مستند ادارے کا فارغ التحصیل ہوگا۔
٭ مسجد میں بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے باقاعدہ کلاس ہو۔
٭ مسجد اپنے مکتبہ فکر کے مطابق چلے امام وخطیب یا انتظامیہ کی طرف سے انتشار واختراق یا فساد پھیلانے کی صورت میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اگر صرف انہیں گزارشات پر عمل کو یقینی بنایا جائے تو آج بھی مسجد صرف ایک عبادت گاہ نہ رہے بلکہ مسجد اپنے اردگرد کے ماحول کو امن ومحبت سے معطر کردے اسی طرح مدارس دینیہ کے نصاب میں دینی ونبوی علوم کو یکجا کیا جائے۔ جہاں ایک وقت میں عالم، مفتی، فقیہ، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور صحافی پیدا ہوں اگر مدارس اس ہدف کو حاصل کرلیتے ہیں تو آج مدارس کو جس حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے صورتحال بالکل اس کے برعکس ہوگی اسی طرح دربار ہے آج برصغیر میں اگر اسلام کی شمع فروذاں ہے تو یہ صوفیا کرام کی تبلیغ کا نتیجہ ہے اور اس بات کو اپنے بیگانے سب تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن آج اگر اہل مذہب کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے تو معذرت کے ساتھ الاماشاء اللہ ان درباروں پر بیٹھے مجاہدوں سے پہنچ رہا ہے۔ مزارات پر ہونے والے ہر غیر شرعی عمل پر نہ صرف پابندی لگے بلکہ ہر دربار کی آمدن ہے اس کے قرب میں ایک اسلامک سکول لانچ کیا جائے جہاں مستحق بچوں کو مفت تعلیم دی جائے۔ مزارات پر عمل کی مجالس لگیں ذکر کے حلقے لگیں اور یوں ایک مزار ایکhon Governmet 06ghigationکے طور پراصلاح معاشرہ میں اپنا کردار ادا کرے ساری گفتگو کو ایک جملے میں ختم کروں مسجد، مدرسہ اور دربار کو قرآن وسنت کے تابع کردیں۔ پورا ملک بدل جائے گا۔لیکن خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here