محترم قارئین! اہل بیت اطھار رضی اللہ عنھم کی فضلیت قرآن واحادیث سے واضح اور ثابت ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ترجمہ:اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ اے نبیۖ کے گھر والو! تم سے ہر ناپاکی کی دور کردے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔(پارہ نمبر22سورہ احزاب)اس آیت کریمہ میں سرکار دو عالمۖ کے اہل بیت کرام کی عظمت وفضلیت کو بیان کیا گیا ہے۔ کس زباں سے ہوبیاں عزوشان اہل بیت۔مدح گوئے مصطفٰی ہے مدح خوان اہل بیت ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیان۔ آیہ قطھیر سے ظاہر ہے شان اہل بیت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع کے دن رسول اکرمۖ اونٹنی پر سوار تھے اور خطبہ ارشاد فرما رہے تھے میں نے سنا آپ نے فرمایا:ترجمہ:اے لوگوں میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑی ہے۔کہ تم اس کو پکڑے رکھو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ایک کتاب اللہ ہے اور میری اولاد میرے اہل بیت اور میں تم میں نفیس اور گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ان میں پہلی چیز کتاب اللہ ہے یعنی قرآن پاک جس میں ہدایت اور نور ہے تو خدائے تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو راوی نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے بارے میں لوگوں کو رغبت دلائی پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا یعنی دوسری چیز جو گراں قدر ہے وہ میرے اہل بیت ہیں۔میں تمہیں اہل بیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے ڈراتا ہوں۔حب اہل بیت کے متعلق مزید چند ارشادات جو آپۖ نے مختلف مقامات پر فرمائے۔ خبردار جو شخص آل محمدۖ کی محبت پر فوت ہوا وہ شہید فوت ہوا، خبردار جو شخص آل محمدۖ کی محبت پر مرا تو اسے ملک الموت جنت کی بشارت دے گا۔پھر منکر نکیر خبردار جو شخص آل محمدۖ کی محبت پر فوت ہوا اس کی قبر میں جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ خبردار جو شخص آلۖ کی محبت میں فوت ہوا وہ سنت پر اور جماعت والوں میں فوت ہوا۔ یعنی وہ اہل سنت وجماعت فوت ہوا۔ حضور علیہ الصلواة نے مزید ارشاد فرمایا:تم میں سے پل صراط پر زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے اہل بیت اور اصحاب کے ساتھ زیادہ محبت کرنے والا ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ اہل بیت المھار کی محبت بھی ضروری ہے اور اصحاب کی محبت بھی لازم ہے اگر اصحاب کو چھوڑ کر صرف اہل بیت کرام رضی اللہ عنھم سے محبت کی جائے تو ایسی محبت قابل قبول نہیں(تفسیر کبیرو تفسیرروح البیان) حب اہل بیت کے بارے میں سیدنا صاق اکبر رضی اللہ عنہ نے یوں ارشاد فرمایا ہے:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرس میں میری جان ہے البتہ رسول اللہۖ کی قرابت مجھے اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے اور جب مدینہ منورہ میں بارش کا سلسلہ منقطع ہوجاتا یعنی قحط کی صورت بنتی تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھم بارگاہ ایزدی میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو وسیلہ کے طور پر پیش کرتے تو بارش کا نزول ہوجاتا۔دعا کا انداز یہ ہوتا:اے اللہ جب ہم پر قحط پڑ جاتا تو ہم اپنے نبی محترم حضرت محمد مصطفیٰ ۖ کو تیری طرف وسیلہ بناتے تو بارش برستی تھی اور اب ہم تیری طرف نبی مکرم ۖ کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں ہم پر بارش نازل فرما اس وسیلہ کا پیش کرنا ہوتا کہ بارش شروع ہوجاتی(الضواعق المحرقہ)
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اہل بیت سے کس قدر محبت تھی کہ ان کا وسیلہ پیش کرکے دعا فرماتے تو بارش ہوجاتی معلوم ہوا کہ اہل بیت کو وسیلہ بنانا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا طریقہ ہے اور حضور علیہ الصلواة والسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے اور میرے خلفاء کے طریقہ کی پیروی کرو کیونکہ جو لوگ وسیلہ بناتے ہیں وہ خلفاء کی سنت اپناتے ہیں اور جو لوگ انکار کرتے ہیں وہ خلفاء کے طریقہ سے بہت دور ہیں۔ سیدنا امام اعظم رضی اللہ عنہ اہل بیت کرام کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ اور مال کیثر خرچ کرتے تھے ایک دن ایک سید صاحب کی خدمت میں انہوں نے بارہ ہزار درھم بھیجے۔امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرح امام شافعی ادریس رضی اللہ عنہ بھی اہل بیت کرام سے بہت محبت کرتے تھے۔آپ جس وادی میں اترتے یا جس گھائی پر چڑھتے تو یہ شعر پڑھتے تھے۔ ترجمہ: اے رسول اللہۖ کے اہل بیت قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری محبت فرض فرمائی ہے(الشرف المئومین)یاد رہے اہل بیت کرام میں حضرت علی، حضر فاطمہ، حضرت سیدہ زینب اور سیدہ رقیہ، کلثوم، امام حسن وحسین اور تمام ازواج مطھرات حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت ام مسلمہ، حضرت ام حبیبہ ودیگر سب شامل ہیں۔ ان سب کی عقیدت، محبت اور الفت اہل ایمان پر لازم ہے۔ اللہ تعالی ان نفوس قدسیہ رضی اللہ عنھم کے درجے بلند فرمائے ہمیں ان کی صحیح معنوں میں تعظیم وتوقیر کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے