28ہزار بھارتیوں کے کینیڈین ویزے منسوخ

0
204

ٹورانٹو (پاکستان نیوز) بھارت اور کینیڈا کے ددرمیان سفارتی جنگ مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ، کینیڈا میں خالصتان تحریک کے اہم رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر جنگ میں تیزی آئی ہے ، کینیڈا کا موقف ہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت براہ راست ملوث ہے جبکہ بھارتی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کینیڈا کے 41 کے قریب سفیروںکو ملک چھوڑنے کا الٹی میٹم جاری کر دیا ہے ،جواب میں کینیڈا نے بھی 28 ہزار کے قریب بھارتیوں کے ویزے منسوخ کرتے ہوئے انہیں پاکستانیوں کے لیے کھول دیا ہے ، کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ وہ بھارت سے تنازع بڑھانے کے خواہاں نہیں ہیں، اور بھارت میں کینیڈین خاندانوں کی مدد کے لیے موجود رہیں گے، کینیڈین وزیراعظم نے بھارت کی جانب سے سفارتکاروں کو واپس بلانے کے معاملے پر تصدیق سے انکار کر دیا۔جسٹن ٹروڈو نے کہا ہم بھارت سے تنازع بڑھانے کے خواہاں نہیں ہیں، اور بھارت سے تعمیری بات چیت جاری رکھیں گے، ہم بھارت میں وہاں کینیڈین خاندانوں کی مدد کے لیے موجود رہنا چاہتے ہیں۔گزشتہ روز برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے 10 اکتوبر تک کینیڈا سے 41 سفارت کار واپس بلانے کا مطالبہ کیا ہے، اور نئی دہلی نے 40 سے زائد سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کو کہا ہے۔کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ سکھ کارکن ہردیپ سنگھ نجر کی موت کے پیچھے بھارت کے ریاستی اہلکاروں کے ہونے کے “الزامات” کی تحقیقات جاری ہیں۔ ٹروڈو نے پارلیمان کو بتایا، کینیڈا کی سکیورٹی ایجنسیاں بھارتی حکومت کے ایجنٹوں اور کینیڈا کے ایک شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے درمیان ممکنہ روابط کے الزامات کی تفتیش کر رہی ہیں۔کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے کہا اگر یہ سچ ثابت ہوا تو یہ ہماری خودمختاری اور اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھانتیجتاً ہم نے ایک اعلیٰ بھارتی سفارت کار کو ملک بدر کر دیا ہے تاہم انہوں نے اس بات کا انکشاف نہیں کیا کہ وہ بھارتی سفارت کار کون ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے کینیڈا میں تشدد کی کسی بھی کارروائی میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پیچھے ایک خاص مقصد ہے۔اس بیان کے چند گھنٹے بعد ہی بھارت نے بھی کینیڈا کے ایک سفیر کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ نئی دہلی میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور سینئر کینیڈین سفارت کار کو ملک بدر کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔نئی دہلی کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کی پارلیمنٹ میں کینیڈین وزیر اعظم کے بیان اور ان کے وزیر خارجہ کے بیان کو دیکھا ہے اور مسترد کر دیا ہے، بیان میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کے الزامات ان خالصتانی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں، جنہیں کینیڈا میں پناہ دے رکھی گئی ہے اور وہ بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کو ٹروڈو کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر گہری تشویش ہے۔ ان کے بقول “ہم اپنے کینیڈین ساتھیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ کینیڈا کی تحقیقات آگے بڑھیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایسے “سنگین الزامات” کے حوالے سے کینیڈا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ لندن میں ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ کینیڈین حکام کی جانب سے جاری تحقیقات کے دوران اس پر مزید تبصرہ کرنا نامناسب ہو گا۔رواں برس جون میں ہردیپ سنگھ نجر کو برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں ایک سکھ گوردوارے کے احاطے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے سے کینیڈا اور دیگر جگہوں پر رہنے والی سکھ برادری میں زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے۔چند برس قبل بھارتی حکومت نے اپنی ریاست پنجاب کے علاقے میں سکھوں کے لیے علیحدہ وطن (خالصتان) کے لیے سرگرم مہم چلانے کے لیے نجر کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔بھارتی حکومت نے نجر کو مطلوبہ فہرست میں شامل کیا تھا اور ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ علیحدگی پسند گروپ کی نیٹ ورکنگ اور تربیت میں سرگرم عمل ہیں۔کینیڈا اور دیگر جگہوں پر بہت سے لوگوں نے الزام لگایا کہ نجر کی موت کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہی ہاتھ ہے۔ اس کے لیے بھارت کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھے۔انڈین حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق کینیڈا میں 17 لاکھ سے زائد انڈین نژاد شہری آباد ہیں، جن میں 8 لاکھ سے زیادہ سکھ ہیں۔اس کے علاوہ تین لاکھ سے زیادہ انڈین طلبا وہاں زیر تعلیم ہیں، جو کینیڈا میں زیر تعلیم تمام غیر ملکی طلبا کا تقریباً 40 فیصد ہیں، ظاہر ہے اتنی بڑی آبادی زندگی کے ہر اہم پہلو کو متاثر کرے گی، چاہے وہ معاشی، سیاسی یا سماجی ہو۔یہ کینیڈا اور انڈیا کے درمیان تجارت سے بھی ظاہر ہوتا ہے جس کی مالیت 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، کینیڈا میں 400 سے زیادہ انڈین کمپنیاں سرگرم ہیں اور اسی طرح انڈیا میں کئی اہم کینیڈین کمپنیاں برسوں سے متحرک ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here