انیس سو ستا نویں میں آنے والے چیف جسٹس ارشادحسن کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے اس وقت کے چیف جسٹس سجادعلی شاہ کو مزیداحکامات تک کام کرنے سے روک دیا تھا اور اب آنے والے چیف جسٹس فائزعیسیٰ کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے اسی وقت عجیب فیصلہ سنایا جب ایک اہم کیس پر چیف جسٹس عطا بندیال کی سربراہی میں جاری پانچ رکنی بینچ جو توڑی گئی صوبائی اسمبلیوں بارے نوے دن میں الیکشن کی آئینی حیثیت کی پروسیڈنگ کو سو موٹو کے تحت دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں سن رہا ہے، جسٹس قاضی عیسیٰ کی مطابق خصوصی بنچ کا اختیارنہیں سو موٹو کا آئین میں وجود نہیں اور یہ کہ ایسے رولز بنانے تک تمام سو موٹو کیسز ملتوی کردئیے جائیں ،جسٹس قاضی عیسیٰ کے اس فیصلے کے آتے ہی جاری پانچ رکنی بینچ ٹوٹ گیا کیونکہ جسٹس امین جو اس اہم پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے نے اس بینچ سے کنارہ کشی اختیار کر لی، چیف جسٹس عطا بندیال نے باقی ماندہ چار جسٹسز کا نیا بینچ بنا دیا ہے جو پروسیڈنگز جاری رکھے گا اور فیصلہ دے گا اور لگتا ہے کہ فیصلہ آئین کے مطابق ہی آئے گا کہ نوے دن میں الیکشن آئینی ذمہ داری ہے لہٰذا نوے دن کے اندر یعنی کہ تیس اپریل کو ہی صوبائی اسمبلیوں خاص طور پر پنجاب اسمبلی کے الیکشن مکمل کئے جائیں مجھے لگتا ہے اب اگر نوے دن میں الیکشن کا فیصلہ آتا بھی ہے تو الیکشن کمیشن اور کیئر ٹیکر حکومتیں قومی اسمبلی سے تازہ پاس شدہ قانون کی بدولت اپیل میں چلی جائیں گی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوموٹو والے فیصلے کی روشنی میں ایک نئی بحث چھڑ جانے امکان بھی ہے جواز کی دھند کو صاف کرنے اور وقت گزاری کے لیے کیسز پر کیسز ہوں گے، ستمبر میں چیف جسٹس عطا بندیال ریٹائرڈ ہو چکے ہوں گے ان کی جگہ جسٹس قاضی عیسیٰ صاحب قاضی جاہ جلال اور اکتوبر تک صدر مملکت ڈاکٹر علوی سابق صدر بن چکے ہوں گے اور آرمی چیف تو اپنا ہی لگایا ہوا ہے مطلب راہ کے سبھی کانٹے چن لیے جائیں گے ۔راوی کم از کم دو سال کے لیے تو چین لکھ ہی دے گا اسکے بعد کوئی اور حل تلاش کر لیا جائے گا یہ میرے تمام خدشات ایک طرف ،ہونی وہی ہے جو میرا اللہ چاہے گا مگر مجھے الیکشن وقت پر ہوتے نظر نہیں آتے۔
٭٭٭